بابری مسجد کی تحقیقاتی رپورٹ افشا، زبردست ہنگامہ
23 نومبر 2009دسمبر 1992 ء کو صوبہ اتر پردیش کے قصبہ اجودھیا میں واقع بابری مسجد کو مسمار کرنے کے 31 دن بعد اس وقت کی بھارتی حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی قیادت میں یک رکنی کمیشن قائم کیا تھا، جس نے با لاآخر17 سال بعد اپنی رپورٹ کو امسال جون میں حکومت کے حوالے کردیا۔ پارلیمانی ضوابط کے مطابق رپورٹ کو رواں برس کے سرمائی اجلاس کے دوران پارلیمان میں پیش کیا جانا تھا لیکن اس سے قبل ہی رپورٹ کے کچھ اقتباسات ایک قومی روزنامہ میں شائع ہو گئے، جس میں مسجد کے انہدام کو ایک بہت ہی منظم سازش قرار دینے کے علاوہ سابق وزیر آعظم اٹل بہاری واجپائی کو مبینہ طور پر نمائشی اعتدال پسند کہا گیا۔
اس اشاعت نے پارلیمان کے اندر اور باہر ایک طوفان کھڑا کردیا با لخصوص واجپائی پر ریمارک سیاسی بحث کا موضوع بن گیا۔ پیر کی صبح جیسے ہی ایوان کی کارروائی شروع ہوئی قائد حزب اختلاف ایل کے ایڈوانی نے اس سلسلہ میں تحریک التواء پیش کردی اور کہا کہ رپورٹ میں واجپائی کا تذکرہ باعث حیرت ہے۔ واجپائی کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی ساری سیاسی زندگی واجپائی کی قیادت میں گزری ہے، ان پر حرف زنی کرنا غلط ہے۔ ایڈوانی نے اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا، تا ہم کہا کہ رام مندر تحریک سے وابستگی پر انہیں فخر ہے اور ان کی زندگی کی خواہش ہے کہ عالیشان رام مندر کی تعمیر ہو۔
دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں نے بھی رپورٹ میں واجپائی کے تذکرہ پر سخت اعتراض کیا ہے۔ مسجد کی مسماری میں پیش پیش رہنے والی اومابھارتی نے پارلیمان کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوے کہا کہ واجپائی نے رام مندر تحریک میں کبھی کوئی حصہ نہیں لیا ہے، ہاں وہ اس میں پیش پیش رہی ہیں اور رام مندر کے لئے اپنی جان تک دینے کے لئے تیار ہے۔ مندر ہندوؤں کے جذبات سے وابستہ ہے اور وہ اس کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گی۔
تاہم بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دونوں ایوانوں میں صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ لبراہن رپورٹ وزارت داخلہ کی نگرانی میں مکمل طور پر محفوظ ہے، اس کی صرف ایک ہی کاپی ہے اور ان کی وزارت کے کسی افسر نے کسی صحافی سے بات نہیں کی۔
دیگر سیاسی جماعتوں اور بائیں محاذ نے اس سانحہ کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سماج وادی پارٹی کے جنرل سیکریٹری امر سنگھ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کی ہے اس لئے اس کے خطا کاروں کو سزا دینی چاہیے۔
رپورٹ میں بی جے پی اور اس کی سرپرست جماعت آر ایس ایس کی قیادت کو مسجد کے انہدام کے لئے ذمہ دار ٹھرایا ہے اور اسے ایک منظم اور گہری سازش قرار دیا ہے۔ اس میں ایڈوانی کے علاوہ مرلی منوہرجوشی، اوما بھارتی، واجپائی اشوک سنگھل، پروین توگڑیا اور دیگر رہنماؤں کو شریک قرار دیا گیا ہے۔
تاہم بعض اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا کہ رپورٹ کے کچھ حصوں کو جان بوجھ کر افشاء کیا گیا ہے تاکہ گنّا، کسانوں اور ہوشربا مہنگائی کے مسئلے پر اپوزیشن کے درمیان قائم ہونے اتحاد کو ختم کیا جا سکے۔
رپورٹ : افتخار گیلانی
ادارت : عاطف توقیر