بجلی کے بلوں کی اڑان، آئی پی پیز پھر تنقید کی زد میں
5 ستمبر 2023پاکستان میں بجلی کے بلوں میں حالیہ بے تحاشہ اضافے کے زمہ دار دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یا انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے کردار کی بھی مزمت کی جا رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم آئی پی پیز کا بل ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس رقم کی اداائیگی کے باوجود گردشی قرضے کا پہاڑ پھر سے قومی خزانے پہ بوجھ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔
انگریزی روزنامے ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کے ذمے آئی پی پیز کے دوکھرب روپے وجب الادا ہیں، جو حکومت کو اس سال کے اخر تک ادا کرنے ہیں۔ یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کی حکومت کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومتیںبجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرتی ہیں، جس سے بنیادی طور پر ان کمپنیوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔
آئی پی پیز پالیسی کا پس منظر
اس وقت ملک میں چالیس سے زائد بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے متعلق پالیسی سب سے پہلے بے نظیر بھٹو کے 1993ء سے لے کر 96ء تک قائم رہنے والے دوسرے دور حکومت میں لائی گئی تھی۔ بعد میں آنے والی دوسری حکومتوں نے بھی ملک میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس پالیسی کو جاری رکھا۔
سیاسی جماعتوں سے تعلق
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کے مفادات کے خلاف کوئی سیاسی جماعت اس لیے نہیں بولتی کیونکہ ان میں اکثر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کا مفاد شامل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کچھ مہنیوں پہلے بلاول بھٹو زرداری لاہور میں کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو کسی نے اٹھ کر کہا کہ سارے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کمپنی کے مالکان یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ان کے خلاف کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ ان میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے مالکان بھی تھے اور ن لیگ کے لوگ بھی تھے۔‘‘
قیس اسلم کے مطابق یہ بات درست ہے کہ بہت سارے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کمپنیوں کے مالکان نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ کار ہیں۔ '' لیکن دراصل وہ پاکستانی ہی ہیں اور ان کمپنیوں کے مالک بھی۔‘‘
’پیپلز پارٹی قصور وار نہیں‘
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ اس نے یہ تباہ کن معاہدے کیے۔ پی پی پی کے سینیٹر تاج حیدر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہم نے تین ہزار میگا واٹ کا معاہدہ ا 1994ء میں کیا تھا۔ اس میں پہلے دس سال میں چھ سینٹ فی یونٹ بجلی پیدا ہونی تھی۔ دوسرے دس سال میں 4.5 سینٹ اور تیسرے10 سال میں دو اعشاریہ پانچ سینٹ۔‘‘
تاج حیدر کے مطابق 30 سال کے بعد یہ انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس حکومت کو منتقل ہو جانے تھے۔ ''لیکن پھر ہماری حکومت ختم کر دی گئی اور مہنگے معاہدے کیے گئے۔‘‘
اصل مسئلہ، ڈالر میں منافع
معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ منافع کو ڈالر میں دینے کا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 17 پرسنٹ فکسڈ ریٹرن ہم ایکوٹی پہ دیتے ہیں اور یہ صارفین ہیں جن کو یہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے چاہے یہ کمپنیاں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔‘‘
شاہد محمود کے مطابق، ''کیونکہ ہمارا بجلی کا نظام زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی یا سول بیوروکریٹس چلاتے ہیں اس لیے ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی معاہدے کی شرائط عوام کے لیے کتنی کڑی ہیں۔ وہ صرف اپنی مراعات اور سہولیات کی فکر کرتے ہیں۔‘‘
شاہد محمود کا کہنا تھا کہ بیرونی کمپنیاں بھی ایک طرح سے کرپشن میں ملوث ہوتی ہیں۔ ' مثال کے طور پہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کرم تنگی ڈیم کی تعمیر کے لیے پاکستان کو 300 ملین ڈالر کا قرضہ اس شرط پر دیا ہے کہ اس کی کنسلٹیشن کے لیے پاکستان ایک ترکش فارم کو ٹھیکہ دے گا۔ اسی طرح چشمہ ۔فائیو پاور پلانٹ کی شرائط میں ہے کہ پاکستان 2.5 بلین ڈالر کا قرضہ چین سے لے گا۔‘‘
معاہدے منسوخ کرنا آسان نہیں
ان مشکلات کے پیش نظر اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ ان معاہدوں کو منسوخ کر دیا جائے۔ شاہد محمود کے خیال میں ایسا کرنے کی صورت میں پاکستان کو بڑی مشکل سے قرض ملے گا۔ '' کیونکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی ساکھ پہلے ہی بہتر نہیں ہے اور ملک کو بین الاقوامی قرضوں کی سخت ضرورت بھی ہے۔‘‘
توانائی کے امور کے ماہر حسن عباس کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے طویل المدت ہوتے ہیں اور انہیں منسوخ کرنا آسان نہیں۔ ''تاہم حکومت کو چاہیے کہ اب درآمد شدہ کوئلے یا تیل سے بجلی پیدا کرنے کے نئے معاہدے نہ کرے۔‘‘