بحیرہ روم میں ایک اور حادثہ، مزید سو مہاجرین لاپتہ
28 اکتوبر 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لیبیا کے ساحلی محافظوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا کے ساحل سے سفر شروع کرنے کے کچھ دیر بعد ہی ربڑ کی ایک کشتی ڈوب گئی، جس کی وجہ سے کم از کم سو مہاجرین لاپتہ ہو گئے ہیں۔ اپنی شناخت مخفی رکھنے کی ایک شرط پر ان محافظوں نے ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ واقعہ بدھ کے دن رونما ہوا تھا۔
بحیرہء روم پچھلے برس کے مقابلے میں تین گنا خون ریز، اقوام متحدہ
دو روز میں دس ہزار سے زائد تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا
برطانیہ مہاجرین کو روکنے کے لیے دیوار کھڑی کرے گا
حکام کے مطابق اس کشتی کی منزل اٹلی تھی۔ اطلاعات ہیں کہ اس حادثے کے بعد امدادی کارکنوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے انتیس افراد کو زندہ بچا لیا تھا۔ مہاجرین کے حالیہ بحران کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد کشتیوں کے ذریعے شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ اسی دوران متعدد حادثات کے نتیجے میں رواں برس ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار آٹھ سو ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے کہا ہے کہ رواں برس سمندری راستوں کے ذریعے مہاجرت کا سفر کرنے والے افراد کی اموات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد وشمار کے مطابق ماضی میں کسی ایک برس کے دوران سمندر میں ڈوبنے کی وجہ سے مہاجرین کی ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ کبھی نہیں تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس یورپ پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد رواں برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن کشتیوں کی حادثاث میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کم رہی تھی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق سن دو ہزار پندرہ کے دوران بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش میں سمندر برد ہونے والے مہاجرین کی تعداد تین ہزار سات سو اکہتر تھی۔
شمالی افریقی ملک لیبیا میں معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے وہاں امن و سلامتی کی صورتحال مخدوش ہے جبکہ وہاں سیاسی خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کے اسمگلر فعال ہو چکے ہیں۔ یہ اسمگلر لوگوں سے رقوم وصول کر کے انہیں غیر قانونی طور پر بحیرہ روم سے یورپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے خستہ کشتیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں، جو سمندری لہروں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں اور دوران سفر ہی حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔