برطانیہ: دو سال میں ساڑھے چار لاکھ بچے جنسی زیادتی کا شکار
27 نومبر 2015انگلینڈ کے کمشنر برائے اطفال نے رواں ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2012ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں ملک میں ساڑھے چار لاکھ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے لیکن صرف ہر آٹھویں بچے کی نشاندہی ہو پائی۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف جاری یہ تحقیقاتی عمل جولائی دو ہزار چودہ میں شروع کیا گیا تھا اور یہ مجموعی طور پر پانچ برس میں مکمل کیا جائے گا جبکہ اس تحقیقاتی عمل پر ستائیس ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس تحقیقاتی عمل کے آغاز کی وجہ ستر کی دہائی کے وہ جنسی اسکینڈل بنے ہیں، جو گزشتہ برس منظر عام پر آئے تھے اور ان میں مشہور شخصیات سمیت سیاستدان بھی ملوث تھے۔
بہت سے اداروں پر الزام ہے کہ وہ جنسی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ چندکیسز میں تو یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اداروں نے قانون دانوں، اعلیٰ عہدیداروں، طاقتور ایجنسیوں اور پولیس کے افسران کے ایما پر جنسی زیادتی کے واقعات پر پردہ ڈالا۔ انکوائری کی چیئرپرسن لوویل گاڈارڈ کا کہنا تھا،’’ہم ویسٹ منسٹر ( لندن کی وہ جگہ جہاں پارلیمان واقع ہے) سے منسلک مشہور شخصیات کی جانب سے جنسی زیادتی کے واقعات کی حقیقت جاننے کے لیے ایک غیرجانب دار انکوائری کریں گے۔‘‘
اس خاتون کا مزید کہنا تھا، ’’ تحقیقات میں جنسی زیادتی کے ان ہائی پروفائل کیسز پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جن میں موجودہ یا سابق رکن پارلیمان ملوث ہیں، یا پھر جن میں حکومتی مشیر، انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار ملوث ہیں۔‘‘
برطانوی حکومت نے گزشتہ برس جولائی میں ایک بڑے پیمانے پر آزادانہ انکوائری کروانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ یہ احکامات جاری کرنے وجہ وہ حقائق بنے تھے، جن کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مشہور اینکر اور سابق سابق ڈائریکٹر جنرل جمی سیوائل کئی عشروں تک سینکڑوں افراد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ شمالی انگلینڈ کے صرف ایک قصبے میں 14 سو بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جمی سیوائل کے سیکس اسکینڈل کے بعد اس ادارے سے منسلک نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا ایک پورا گروپ بے نقاب ہوا تھا۔ اس میں جمی سیوائل جیسے بی بی سی کے بہت سے دیگر ٹاپ اسٹارز کے نام بھی شامل ہیں۔
انگلینڈ کے کمشنر برائے اطفال کے مطابق، ’’اس ملک میں بچوں کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر جنسی استحصال کو فوری اور شدید توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ جن اداروں کو تحقیقات میں شامل کیا جا رہا ہے، ان میں لوکل اتھارٹیز، اسکول، نوجوانوں کے حراستی مراکز، چرچ آف انگلینڈ، مسلح افواج اور وزارت خارجہ کے ادارے بھی شامل ہیں۔