برونائی میں عالمی تنقید کے باوجود سخت ’شرعی‘ قوانین نافذ
3 اپریل 2019عالمی سطح پر سیاست دانوں، معروف شخصیات اور انسانی حقوق کے گروپس کی سخت مخالفت کے باوجود ان قوانین کے نفاذ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
جزیرہ ریاست برونائی میں سلطان حسن البلقیہ مطلق العنان حاکم ہیں اور گزشتہ کئی برسوں کی تاخیر کے بعد اب یہ قوانین مکمل طور پر نافذ ہو رہے ہیں۔
برونائی میں کرسمس منانے پر پابندی
برونائی میں اسلامی قوانین، ہیومن رائٹس واچ کی تنقید
ان نئے قوانین میں چوروں کے ہاتھ اور پیر کاٹنے تک کی سزائی رکھی گئی ہیں۔ اس طرح برونائی مشرق بعید کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں قومی سطح پر تعزیراتی سزاؤں کے لیے شریعہ پینل کوڈ متعارف کروایا گیا ہے۔ اس طرح برونائی مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب جیسے ممالک کے بعد وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں قومی سطح پر شریعہ قوانین کا نفاذ عمل میں آ گیا ہے۔
ان نئے قوانین کے مطابق زنا اور ڈکیتی پر بھی سزائے موت رکھی گئی ہے، جب کہ توہین رسالت پر سزائے موت دینے کا دائرہ کار مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم افراد تک وسیع کر دیا گیا ہے۔
ان قوانین کے نفاذ پر عالمی سطح پر سخت تنقید کی جا رہی ہے، جب کہ اقوام متحدہ نے ان سزاؤں کو ’ظالمانہ اور غیرانسانی‘ قرار دیا ہے۔ معروف اداکار جارج کلونی اور پاپ اسٹار اہلٹون جان نے اپیل کی ہے کہ برونائی کی ملیکت ہوٹلوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔
اپنے ایک عوامی خطاب میں برونائی کے سلطان نے کہا کہ اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے، تاہم انہوں نے اس خطاب میں نئے پینل کوڈ کا ذکر نہیں کیا تھا۔
دارالحکومت بندر سری بیگاوان کے قریب ایک کنوینشن سینٹر میں ایک خطاب میں انہوں نے کہا، ’’میں اس ملک میں اسلامی تعلمیات کا پھیلاؤ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ قومی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ ان قوانین کے نفاذ کے باوجود برونائی غیرملکی سیاحوں کے لیے ایک محفوظ اور پرسکون جگہ رہے گا۔
اس خطاب کے بعد حکام نے تصدیق کی کہ ملک میں شرعی قوانین نافذالعمل ہو چکے ہیں۔
ان قوانین کے نفاذ پر عالمی سطح پر سخت تنقید جاری ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا خطے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فِل رابرٹ سن نے اس پر اپنے سخت ردعمل میں کہا، ’’ایسا عمل جسے جرم تک تصور نہیں کیا جانا چاہیے، اس پر اتنی بھیانک سزائیں جڑ تک بہیمانہ ہیں۔‘‘
یورپی یونین کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نئی سزائیں، ’’عقوبت، سفاکانہ عمل، غیرانسانی اور انسانی وقار پر حرف‘ سے عبارت ہیں۔ ان سزاؤں کا نفاذ خصوصاﹰ برونائی کی انتہائی اقلیت ہم جنس پرست برادری (LGBT) کے لیے پریشان کن ہے۔ ان نئے قوانین سے قبل دو مردوں کے درمیان جنسی تعلق پر دس برس قید کی سزا تھی، جسے اب تبدیل کر کے سنگ ساری کے ذریعے موت کر دیا گیا ہے، جب کہ دو خواتین کے درمیان جنسی تعلق پر چالیس کوڑوں کے علاوہ دس برس قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
برونائی سے تعلق رکھنے والے ایک تینتیس سالہ ہم جنس پرست نے اپنا نام مغفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’یہ بہت ناانصافی ہے۔ یہ سفاکی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ سے مجھ سے خوشی اور میری آزادی چھین لی گئی ہے، جس سے میں بے حد دکھی ہوں۔‘‘
ع ت، ک م (روئٹرز، اے ایف پی)