بریگزٹ: برطانوی حکومت اختلافات کا شکار ہوتی ہوئی
30 جولائی 2017یہ اختلافات برطانوی حکومت کے دو وزراء لائم فوکس اور فلپ ہیمنڈ کی جانب سے جاری ہونے والے متضاد بیانات سے ظاہر ہوئے ہیں۔ لائم فوکس بین الاقوامی تجارت کے وزیر ہیں جب کہ فلپ ہیمنڈ برطانوی وزیر خزانہ ہیں۔ ان کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد روزگار کی منڈی میں کام کرنے والوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا مسئلہ ہے۔
بریگزٹ: برطانیہ کا یورپی یونین سے مذاکرات کا آغاز
یورپ بھر میں موبائل فونز پر رومنگ سرچارج ختم
برطانیہ کسی خوش فہمی میں نہ رہے، میرکل
لائم فوکس کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ٹریزا مے کی کابینہ مارچ سن 2019 میں یونین سے برطانیہ کے اخراج کے بعد امیگریشن قوانین پر پوری طرح متفق نہیں ہے۔
فلپ ہیمنڈ کا اس تناظر میں موقف بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کابینہ میں اس معاملے پر ایک وسیع اتفاقِ رائے موجود ہے۔ ہیمنڈ کے مطابق روزگار کے حصول کے لیے برطانوی اور یونین کے رکن ملکوں کے شہریوں پر تین برس تک نقل و حرکت کے موجودہ قوانین کا اطلاق رہے گا اور وہ آزادانہ طور آ جا سکیں گے۔
فلپ ہیمنڈ کے بیان پر مزید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی تجارتی امور کے وزیر لائم فوکس نے جریدے سنڈے ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا کچھ زیر بحث لایا گیا ہے تو وہ یقینی طور پر کابینہ کی اُس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔
برطانوی وزیر خزانہ ہیمنڈ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق جونیئر وزیر ڈیوڈ جونز کا کہنا ہے، اگر انخلا کے بعد بھی تین برس تک برطانوی روزگار کی منڈی میں یونین کے رکن ملکوں کے افراد ملازمتیں جاری رکھیں گے تو یہ ایک انتہائی خطزناک معاشی صورت حال کی عکاس ہے۔ جونز کے مطابق ہیمنڈ کا یہ بیان وزیراعظم مَے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کے اقتصادی مشیر گیرارڈ لیونز کا خیال ہے کہ تین کے بجائے دو برس کا عبوری عرصہ مناسب رہے گا۔ سنڈے ٹیلیگراف کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لیونز نے کہا کہ بریگزٹ کے حوالے سے پیدا موجودہ خدشات پہلے سے اخذ شدہ معلوم ہوتے ہیں اور ان کا حتمی ہونا واضح نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ برطانوی وزیراعظم آج کل اپنی تعطیلات گزارنے ملک سے باہر گئی ہوئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اُن کی عدم موجودگی میں جنم لینے والے اس اختلاف کے لندن حکومت اور یونین کے جاری مذاکراتی عمل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس مناسبت سے برطانوی سیاسی حلقوں کے مطابق ٹریزا مَے پہلے ہی رواں برس جون میں ہونے والے انتخابی نتائج سے کمزور حکومت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ اختلافی معاملہ نیا دردِ سر بن سکتا ہے۔