بریگزٹ کے ایک اور حامی رہنما قیادت سے دستبردار
4 جولائی 2016یو کے انڈیپینڈنس پارٹی UKIP کے رہنما نائجل فاراژ کی طرف سے قیادت چھوڑنے کا فیصلہ بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا سبب بنا ہے۔ لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائجل فاراژ کا کہنا تھا، ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یو کے آئی پی کی قیادت سے الگ ہو جاؤں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کی مہم کی جیت کا مطلب ہے کہ میری سیاسی آرزو کی تکمیل ہو چکی ہے۔‘‘
52 سالہ اس سیاستدان نے تاہم عزم ظاہر کیا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کی دوبارہ مصالحت کے عمل پر گہری نظر رکھیں گے۔ نائجل برسلز میں یورپی پارلیمان کے رکن برقرار رہیں گے۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اکتوبر میں وزراتِ عظمیٰ اور پارٹی قیادت کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ فاراژ نے کیمرون کی جگہ برطانیہ کی آئندہ متوقع وزیر اعظم تھیریسا مے کے حوالے سے کہا کہ برطانیہ کا نیا سربراہ ’بریگزٹ وزیر اعظم‘ ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ تھیریسا مے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کی حامی تھیں۔ نائجل نے یورپی یونین کے دیگر حصوں میں آزادی کی تحریکوں کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ نائجل فاراژ کے اعلان پر لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں ایسلبورن نے تنقید کی ہے۔
نائجل فاراژ بریگزٹ کے حق میں مہم چلانے والے دوسرے رہنما ہیں جو 23 جون کی کامیابی کے بعد قیادت سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں بریگزٹ کے حامی اور لندن شہر کے سابق میئر بورس جانسن نے بھی کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے عمل میں شریک ہونے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔
یورپی پارلیمان میں دائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت یورپیئن پیپلز پارٹی کے جرمن سربراہ مانفریڈ ویبر نے یو کے آئی پی کے رہنماؤں کو قیادت چھوڑنے پر ’بزدل‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’فاراژ تازہ ترین بزدل ہیں جنہوں نے اس افراتفری سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے وہ ذمہ دار ہیں‘‘ اپنے ٹوئیٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا، ’’اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔‘‘
23 جون کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔