بلاول کے بیانات عمران خان کی سیاسی تنہائی ختم کر پائیں گے؟
11 ستمبر 2023بلاول بھٹو مسلم لیگ نون کے الیکشن سے بھاگنے پر تنقید کرکے پی ٹی آئی کے نوے روز میں الیکشن کروانے کے مطالبے کو دوہرا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ ''کٹھ پتلیاں بنانے والوں‘‘ کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے عوام پر تجربے کرنا بند کر دیں اور لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔ بلاول بھٹو کے لہجے میں ایسا اعتماد ہے کہ وہ بظاہر اس معاملے پر اپنے والد آصف علی زرداری کی رائے کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
یاد رہے آصف علی زرداری نے اپنے ایک تازہ بیان میں سیاست پر معیشت کو ترجیح دینے، الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کو مکمل کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ کام کرنے والی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنے پر زور دیا تھا۔
پی ٹی آئی اور پی پی پی میں فعال رابطے
سیاسی تجزیہ کار جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے، جو تحریک انصاف کے ساتھ فعال رابطے رکھے ہوئے ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو سیاسی تنہائی سے نکلنے کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر ہیں، ''عمران خان کی حمایت میں انتہائی سرگرم کردار ادا کرنے والے چوہدری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ کی سرگرمیوں کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اعتزاز احسن جنہیں پیپلز پارٹی سے نکالنے کی باتیں ہو رہی تھیں اب ان کی پیپلز پارٹی کے ایک حالیہ مرکزی اجلاس میں شرکت اور پزیرائی کو بھی سیاسی پنڈت اہمیت کی حامل پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔‘‘
’پیپلز پارٹی کی انتخابی مشکلات‘
جاوید فاروقی کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کی مسلم لیگ نون اسے نظر انداز کرکے تنہا اقتدار کے مزے لے۔ ان کے بقول پی پی پی کو یہ بات بھی پسند نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جی ڈی اے سے مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، ''جب سے نگران حکومت برسر اقتدار آئی ہے، تب سے سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ دکھ بھی ہے کہ طاقتور حلقے بلوچستان میں پی پی پی کو حکومت دینے کے وعدے سے پھر چکے ہیں اور پی ٹی آئی سے پیپلز پارٹی کا رخ کرنے والوں کو روکا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لوگوں میں بنیادی گفتگو کا آغاز ہو چکا ہے۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کے زرداری سے رابطے
صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے الیکشن کمیشن اور حلقہ بندیوں کی حمایت میں دیے جانے والے تازہ بیان سے یہ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا زرداری سے رابطہ بحال ہو گیا ہے اور ان میں پھر سے بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین کسی ممکنہ انتخابی اشتراک کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایسا بالکل ممکن ہے، ''پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ سرکاری ہتھکنڈوں کی زد میں آئی ہوئی پی ٹی آئی کتنی بچتی ہے، پاکستانی سیاست میں اس کا کتنا وزن باقی رہتا ہے اور اسے الیکشن میں حصہ لینے کی کتنی آزادی ملتی ہے اور وہ اپنے ووٹ بینک کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے کیسی حکمت عملی اپناتی ہے۔ ‘‘
''دیکھو اور انتظار کرو‘‘
ادھر پنجاب میں مسلم لیگ نون کسی کے ساتھ لمبی چوڑی انتخابی شراکت پر فی الحال تیار دکھائی نہیں دے رہی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ بھی کھٹائی کا شکار ہو چکا ہے۔ نون لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ ان کی جماعت کا پیپلز پارٹی کے ساتھ کبھی اتحاد نہیں رہا اور وہ صرف انتحابی اصلاحات اور معاشی ابتری کی صورتحال میں بہتری کے لیے قومی حکومت بنانے پر متفق ہوئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا سمجھے جانے والے شہباز شریف یہ تاثر دے کر رخصت وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے تھے کہ جیسے وہ کچھ ہی دیر بعد پھر وزیر اعظم بن جائیں گے۔ وہ بھی مختلف اندیشوں کے ساتھ ''دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی لیے ملک سے باہر سدھار گئے ہیں۔
سیاسی مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں
جاوید فاروقی کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے مطابق، ''ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ نیب ترامیم کے بارے میں سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں نیب کے قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا تو پھر نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز ، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، اور خورشید شاہ سمیت بہت سے سیاست دانوں کے خلاف کیسز دوبارہ کھل سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق سے کئی چہرے مائنس ہو جائیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلے یوں لگ رہا تھا کہ نواز شریف اقتدار سنبھالنے آ رہے ہیں اور اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوسرے آپشن بھی دیکھ رہی ہے، ''اس کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ عام لوگ عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر اتنے ناراض نہیں ہیں جتنا وہ اس بات پر نالاں ہیں کہ عمران خان کو گھر بھیج کر ان لوگوں کو لایا جا رہا ہے جن کے بارے میں خود اسٹیبلشمنٹ نے بار بار کہا تھا کہ وہ چور اور بد دیانت ہیں۔ یہ صورتحال آج کے زیرو کو کل کا ہیرو بھی بنا سکتی ہے۔ ‘‘
خیال کیا جا رہا ہے کہ عمران کی مقبولیت ابھی ختم نہیں ہو سکی۔ نواز شریف کے پاس بھی ایک بڑا ووٹ بینک ہے اور زرداری کی مخالفت مول لینا بھی سندھ، بلوچستان اور فاٹا میں درست پیغام کا باعث نہیں بنے گا۔ ملکی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ معاشی مسائل ابھی حل ہونے میں نہیں آ رہے، دہشت گردی شدت پکڑتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے اور اسے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے کہ وہ کس پر ہاتھ رکھے اور کسے نظر انداز کرے۔