بلوچستان کی کان میں دھماکہ، 21 افراد ہلاک
20 مارچ 2011صوبہ بلوچستان کے ایک سینئر سرکاری اہلکار افتخار احمد نے بتایا کہ امدادی کارکنوں کو مزید 15 لاشیں ملی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 21 ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کان میں پھنسے ہوئے افراد کے زندہ بچ جانے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
بر رساں ادارے اے ایف پی نے کوئٹہ پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اڑتالیس کان کن بارہ سو میٹر گہرائی میں کام میں مصروف تھے کہ اچانک تین دھماکے ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے دور دراز علاقے سورانج میں پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئیں اور امدادی کام شروع کر دیے گئے۔
بلوچستان میں کان کنی شعبے کے چیف انسپکٹر محمد افتخار نے بتایا ہے کہ اگرچہ امدادی کام جاری ہے لیکن کان میں گیسوں کے اخراج کی وجہ سے اندر اترنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، ’اس بات کے امکانات نہایت کم ہیں کہ کان کے اندر پھنسے ہوئے کان کن ابھی تک زندہ ہوں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کان سے جو لاشیں برآمد کی گئی ہیں، وہ تمام افراد سانس گھٹنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔’ کان کے اندرگیسوں کا اخراج جاری ہے، جس کے نتیجے میں امدادی کام متاثر ہو رہے ہیں‘۔
محمد افتخار کے مطابق کان کے اندر جانے والے کئی امدادی کارکن زہریلی گیسوں کے باعث بے ہوش ہو گئے، جنہیں دیگر امدادی کارکنوں نے باہر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ امدادی کام دوبارہ شروع کریں گے۔
جس کان میں حادثہ ہوا ہے، وہ حکومت کی ملکیت تھی اور اسغ ایک ہفتے قبل ہی خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں موجود کانوں میں مناسب حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی ہمیشہ سے ہی ایک سوال رہی ہے۔ وہاں اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان