بن علی کو پینتیس سال کی سزا
21 جون 2011تیونس میں عوامی بغاوت اور مظاہروں کے نتیجے میں سابق صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کے سعودی عرب فرار ہو جانے کے بعد ان کی غیر حاضری میں تیونس کی عدالت نے انہیں پینتیس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
بن علی پر غیر قانونی زیور اور بھاری نقد رقم رکھنے کا الزام تھا۔ عدالت نے بن علی کی اہلیہ کو بھی اتنی ہی سزا سنائی ہے۔
بن علی اپنے تئیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ چودہ جنوری کو سعودی عرب چلے گئے تھے، جہاں وہ پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تیونس کے عوامی مظاہروں نے عرب ممالک میں جمہورت اور سیاسی و معاشی اصلاحات کے حصول کے لیے تحریکوں کو جنم دیا جنہیں ’عرب اسپرنگ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تیونس کے بعد مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کو عوامی مظاہروں کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مبارک پر قاہرہ کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ بحرین، شام، یمن اور لیبیا میں بھی مطلق العنان حکمرانوں کو عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔
ادھر بن علی کے اٹارنی نے تیونس کی عدالت کے فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ ایک مذاق ہے۔ آپ مذاق کا بدلہ نہیں لیتے۔ آپ صرف اس پہ ہنس سکتے ہیں۔‘‘
تیونس کے سابق صدر پر ایک دوسرے مقدمے کی سماعت تیس جون تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ یہ مقدمہ بن علی پر اسلحہ اور منشیات رکھنے کے الزام کے حوالے سے چلایا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ بن علی اپنے اوپر عائد تمام الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل