030511 USA Afghanistan
3 مئی 2011اب تک کے پروگرام کے مطابق 2014ء کے اواخر تک افغانستان میں امن و امان کی تمام تر ذمہ داریاں افغان پولیس اور فوج کے حوالے کر دی جائیں گی۔ دو مئی کو القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ آئندہ بھی افغانستان میں القاعدہ اور طالبان میں اُس کے حلیفوں کا تعاقب جاری رکھا جائے گا اور ساتھ ساتھ افغانستان میں حکومت کی تشکیل اور دہشت گردوں کو الگ تھلگ کرنے کے سلسلے میں بھی مدد دی جاتی رہے گی۔
ہلیری کلنٹن نے کہا: ’’طالبان کے لیے ہمارا پیغام وہی ہے، جو پہلے تھا لیکن آج شاید وہ زیادہ پُر زور طریقے سے سامنے آیا ہے۔ ہم زیادہ ہمت اور صبر رکھتے ہیں۔ تم ہمیں شکست نہیں دے سکتے لیکن تم یہ فیصلہ ضرور کر سکتے ہو کہ خود کو القاعدہ سے الگ کر لو اور ایک پُر امن عمل سیاسی عمل میں شرکت کرو۔‘‘
امریکی حکومت سے قریبی وابستگی رکھنے والے ’سینٹر فار امیریکن پراگریس‘ کے سلامتی کی بین الاقوامی سیاست کے ماہر مشائیل وَیرس کہتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کی موت زیادہ تر علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں القاعدہ کافی عرصے سے محض ایک ضمنی کردار ادا کر رہی تھی اور گزشتہ برسوں کے دوران القاعدہ کی عملی سرگرمیوں اور جنگی حکمتِ عملی میں اُسامہ بن لادن کا بھی کوئی زیادہ بڑا کردار نہیں تھا۔
بہرحال اُسامہ بن لادن کی ہلاکت سے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی کے ایک اہم باب کا خاتمہ ہو گیا ہے بلکہ امریکی صدر کے اُن ناقدین کا منہ بھی بند ہو گیا ہے، جو اُنہیں اب تک بہت زیادہ نرمی برتنے والا اور لچکدار موقف کا حامل صدر قرار دے رہے تھے۔ ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ کی خارجہ امور کی ماہر گیڈین روز کے مطابق بن لادن کی موت کے بعد اوباما پہلے سے زیادہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کر سکتے ہیں: ’’اب اگر وہ اپنی کوئی پالیسی تبدیل نہ کرنا چاہیں یا مثلاً افغانستان سے جلد فوجیں واپس بلانا چاہیں تو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا 2014ء کے اواخر تک امریکی اَفواج واقعی افغانستان سے واپس بلائی جا سکتی ہیں؟ کچھ امریکی ماہرین کے خیال میں اگر امریکیوں کے مکمل انخلاء کے بعد افغان سکیورٹی فورسزسلامتی کی ضمانت نہ دے پائیں تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
بن لادن کی موت نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بھی ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگر تو پاکستان کو پہلے سے بن لادن کی وہاں موجودگی کا علم تھا تو پھر امریکی پاکستانی حکام کو اطلاع دیے بغیر یہ کارروائی کرنے میں حق بجانب تھے۔ اور اگر پاکستانی ادارے بن لادن کی موجودگی سے بے خبر تھے تو بھی اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک حلیف کی حیثیت سے پاکستان اپنی ذمہ داری پوری طرح سے نہیں نبھا پایا۔
ماہرین کے خیال میں اگر پاکستان اس بحران سے اچھی طرح سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے تو پھر وہاں اب اس موضوع پر ایک مستحکم بحث شروع ہونی چاہیے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی بین الاقوامی سطح پر ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو سکا تو پھر ہو سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔
رپورٹ: کرسٹینا بیرگمان (واشنگٹن) / امجد علی
ادارت: مقبول ملک