بنگلہ دیش، جماعت اسلامی کے رہنما کو پھانسی دے دی گئی
4 ستمبر 2016تریسٹھ سالہ علی کو غازی پور کی جیل میں اتوار کی صبح موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پولیس کے مطابق میر قاسم علی کی لاش کو ان کے آبائی گاؤں پہنچا دیا گیا ہے۔ مقامی پولیس کے سربراہ نذر الاسلام اسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ میر قاسم علی کی نماز جنازہ میں درجنوں افراد نے شرکت کی جن میں سے زیادہ تر ان کے خاندان کے افراد تھے۔سن دو ہزار دس میں قائم کیے گئے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میں اب تک چھ اپوزیشن رہنماؤں کو پھانسی دی ہے، جن میں جماعت اسلامی کے پانچ سرکردہ رہنما شامل ہیں۔ جنگی جرائم کی عدالت پر ملکی اور غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیمیں غیر شفاف ہونے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ میر قاسم علی کی موت ان کی جماعت کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔ ستر کی دہائی کے اواخر میں جماعت اسلامی کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد سے اس کی از سر نو تعمیر میں میر قاسم کا اہم کردار رہا ہے۔ قاسم علی کو پھانسی دینے سے قبل سکیورٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا۔
دوسری جانب جماعت اسلامی اور ملک میں حزب اختلاف بی این پی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مقدمات کی سماعت ڈھونگ ہے اور یہ خصوصی عدالت دراصل سیاسی مخالفین کی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ قاسم علی کی پھانسی ایک ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی ہے جب ڈھاکا حکومت انتہا پسندی کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لا چکی ہے۔ یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک مقبول کیفے پر ہونے والے حملے کے بعد سے بنگلہ دیشی حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ قاسم علی کی پھانسی سے قبل غازی پور میں قریب ایک ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سن دو ہزار دس میں ایک خصوصی کریمنل ٹریبونل قائم کی تھی، جس کا مقصد ایسے مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے چلانا تھا، جو سن انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی کی جنگ میں مختلف قسم کے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔