بنگلہ دیش: مظاہرین پھر سڑکوں پر، پولیس کی آنسوگیس کی شیلنگ
31 جولائی 2024بنگلہ دیش میں پولیس نے آج بروز بدھ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹمکے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج کے دوران تشدد کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ سرکاری ملازمتوں کے حوالے سےتحفظات پر طلبہ کی قیادت میں رواں ماہ کیے جانے والے احتجاج کے دوران کم از کم 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان مظاہروں کے دوران بڑے پیمانے پر پھیلنے والیبدامنی کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دور حکومت کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا تھا۔ وہ جنوری میں ہونے والے انتخابات میں مسلسل چوتھی مرتبہ کامیاب ہو کر وزیر اعظم بنی تھیں۔ پولیس نے کہا کہ بدھ کے روز شمال مشرقی ضلع سلہٹ میں مظاہرین نے عدالتوں کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں لگائی گئی رکاوٹیں توڑ دیں تو انہیں طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
علاقائی ڈپٹی کمشنر اظبہار علی شیخ نے کہا، ''ہم نے مظاہرین سے سڑک سے ہٹنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے بات نہیں مانی اور اس کے بجائے پولیس پر حملہ کیا، جس کے بعد ہمیں مظاہرین کو آنسو گیس اور سٹن گرنیڈوں کے ذریعے منتشر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ اور جنوبی بندرگاہی شہر چٹاگانگ بھی ان متعدد مقامات میں شامل تھے، جہاں پولیس اور مظاہرین میں ہاتھا پائی ہوئی۔ ان تازہ مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی، میڈیا نے کچھ لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے جبکہ کچھ طلبہ کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
بدھ کو ملک گیر ''مارچ فار جسٹس‘‘ کی کال ''امتیاز کے خلاف طلبہ‘‘ نامی گروپ نے دی تھی۔ یہ وہی گروپ ہے، جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف مظاہروںمیں سب سے آگے تھا۔ اگرچہ 21 جولائی کو سپریم کورٹ کی جانب سے زیادہ تر کوٹے ختم کرنے کے بعد طلبہ نے اپنا احتجاج ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن وہ اس ماہ مظاہرین کے خلاف کیے گئے تشدد میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور حکومتی دھمکیوں کے خلاف دوبارہ مظاہرہ کرنے نکلے۔
طلبہ تحریک کے ایک رابطہ کار محمد ماہین سرکار نے ایک بیان میں مزید کہا، ''ہم اقوام متحدہ سےتشدد کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کریں گے۔‘‘ انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے جھڑپوں میں ملوث ہونے اور سرکاری املاک کو تباہ کرنے کے الزام میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 10,000 کے قریب گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
حکومت کی اقوام متحدہ سے تحقیقات میں مدد کی اپیل
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ اور مختلف بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم مناسب تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کے لیے سزا کو یقینی بنانے میں ان کی مدد چاہتے ہیں۔‘‘
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش کی صورتحال کی وجہ سے ڈھاکہ کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی اور ترقیاتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک نئے تعاون کے معاہدے پر بات چیت ملتوی کر دی ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں پر بات چیت نومبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کی گئی ہے اور بقول ان کے اس کا فیصلہ حالیہ تشدد سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اس اہلکار اتم کمار کرماکر نے ایک بیان میں کہا، ''یہ تاخیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف گزشتہ ماہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں شروع ہونے والا یہ احتجاج ملک گیر مظاہروں میں تبدیل ہو گیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے اور مزید تشدد روکنے کے لیے کرفیوکے نفاذ اور سڑکوں پر فوج کے گشت کےسا تھ ساتھ انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئیں۔
تاہم بنگلہ دیشی حکام نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ طلباء کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف احتجاج ختم کرنے اور حالات معمول پر آنے کے بعد ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی گئی ہیں۔
شیخ حسینہ حکومت نے مظاہروں کے دوران تشدد کے لیے مرکزی اپوزیشن سیاسی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اس حکومتی دعوے کی تردید کرتی ہیں۔
ش ر ⁄ م م (روئٹرز)