بنگلہ دیش: ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف پرتشدد مظاہرے
16 جولائی 2024بنگلہ دیش پولیس کا کہنا ہے کہ ملک میں اہم سرکاری عہدوں پر ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف پیر کے روز طلبہ کے مظاہروں کے دوران حکمراں جماعت کے حامیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ طلبہ تنظیموں نے آج منگل کو بھی مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم حکومت نواز گروپوں کے بچوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے اور اسے ختم کردیا جانا چاہئے۔
بنگلہ دیش: ہزاروں اپوزیشن کارکنوں پر 'جعلی' مقدمات درج
بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرے جاری، ٹرین جلا دی گئی
کوٹہ سسٹم کے تحت اچھی تنخواہ والی سول سروس،جن میں لاکھوں سرکاری ملازمتیں شامل ہیں،کے عہدوں میں سے نصف سے زیادہ کو مخصوص گروپوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ان گروپوں میں سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ میں حصہ لینے والے افراد کے بچے بھی شامل ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کوٹہ سسٹم سے صرف حکومت نواز گروپوں کے بچوں کو فائدہ ہوتاہے، جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حمایت کرتے ہیں۔ حسینہ نے جنوری میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل چوتھی مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے کوٹہ سسٹم کو عارضی طورپر معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن کوٹہ سسٹم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مظاہرے اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ اس اسکیم کو مکمل طورپر ختم نہیں کردیا جاتا۔
پرتشدد مظاہرے
پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حکمراں عوامی لیگ پارٹی کے حامی سینکڑوں کارکنوں نے پیر کے روز ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظا ہرہ کرنے والے طلبہ پر حملہ کردیا۔ فریقین کے درمیان کئی گھنٹے تک لڑائی ہوتی رہی۔ اس دوران دونوں نے ایک دوسرے پر پتھروں سے حملے کیے، لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں کا بھی استعمال کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ کچھ لوگ چاقو بھی لہرارہے تھے جب کہ دیگر نے پٹرول بم پھینکے۔
ڈھاکا میں طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی، ہزاروں طلبہ کا احتجاج
بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری، متعدد پرتشدد واقعات
کوٹہ سسٹم احتجاج کی قومی رابطہ کار ناہید اسلام کا کہنا تھا کہ ان کے "پرامن جلوس" پر لوگوں نے ڈنڈے، لاٹھیوں اور پتھروں سے حملے کردیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو بھی مارا پیٹا گیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ کم از کم ڈیڑھ سو طلبہ زخمی ہوئے ہیں، جن میں 30 خواتین شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 20 طلبہ کی حالت تشویش ناک ہے۔
ڈھاکہ میڈیکل ہسپتال میں زیر علاج ایک زخمی طالب علم کا کہنا تھا،"ہمارا جلوس پرامن طورپر آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک چھاتر لیگ (حکمراں جماعت کی طلبہ ونگ) کے لوگوں نے ہم پر لاٹھیوں، چاقووں، لوہے کی سلاخوں اور اینٹوں سے حملہ کردیا۔"
دوسری طرف وزیر خارجہ محسن محمود کا کہنا تھا،"کچھ لوگ نوجوان طلبہ کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے کوٹہ مخالف تحریک کو ریاست مخالف تحریک میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ حکومت غیر مستحکم صورت حال پیدا نہیں ہونے دے گی۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ کا ردعمل
مقامی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کی جانب سے کوٹہ سسٹم کو عدالتی معاملہ قرار دیے جانے سے متعلق بیان کے بعد پورے ملک میں اتوار کی رات کو شروع ہونے والے طلبہ کے مظاہروں کا سلسلہ پیر کو بھی جاری رہا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے مظاہرین کا موازنہ ان رضاکار جنگجووں سے کیا جنہو ں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
شیخ حسینہ نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے دوران ملک کے آزادی کے لیے جنگ میں شامل ہونے والوں کی اولادوں کے لیے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کی نکتہ چینی کی۔
تاہم کوٹہ سسٹم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صرف نسلی اقلیتوں اور معذوروں کے لیے ہی سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن، جو کہ چھ فیصد ہے، باقی رہنا چاہئے۔
ج ا/ ص ز(اے ایف پی، خبر رساں ادارے)